کیا ہم عید کی خوشیاں سمیٹنے کے حق دار ہیں؟
عید الفطر ماہ صیام کے اختتام پر اللہ تعالیٰ سے مسرت و شادمانی کی صورت میں انعام حاصل کرنے کا دن ہوتا ہے۔ یہ روحانی مسرت و شادمانی درحقیقت وہی مرد و زن، بچے اور بوڑھے سمیٹتے ہیں جو رمضان المبارک میں کتنی کے ایام قرآن و احادیث کی روشنی میں اس طرح گزارتے ہیں کہ بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ نہیں چھوڑتے اورنماز پنجگانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ رزق حلال سے حسب و توفیق صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور عید الفطر کے دن نماز ادا کرنے سے قبل مستحقین میں فطرانہ تقسیم کرتے ہیں تاکہ مالی لحاظ سے مشکلات کے شکار وہ اہل اسلام بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
اس پس منظرمیں ہر اہل ایمان کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے ماہ صیام کے گنتی کے دن اس انداز میں گزارے ہیں کہ ہم میں تقویٰ اور پرہیز گاری ایسے حصائل اجاگر ہوئے ہیں یا نہیں کہ ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بجالانے والے کہلاسکیں۔ہم میں سے جن اہل ایمان خواتین و حضرات نے رمضان المبارک کے دن پورے خضو ع و خشوع کے ساتھ گزارے ہوں گے اور کوشش کی ہو گی کہ ان کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، وہ یقینااللہ تعالیٰ کے انعامات سے فیض یاب ہونے کے حق دار ٹھہرتے ہیں اور جن لوگوں نے گنتی کے یہ ایام اس انداز سے گزارے ہوں جن کے قول و فعلمیں تضاد ختم ہوا ہو نہ ان کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے محفوظ رہے ہوں، دوسروں کی حق تلفی ان کی عادت ثانیہ رہی ہو اور چغلی بخیلی ان کا مشغلہ رہی ہو، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کردار واعمال پر غور کریں اور ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر خودسے ضرور سوال کریں کہ آیا وہ عیدالفطر کے دن اللہ تعالیٰ سے حقیقی روحانی فیوض و برقات حاصل کرنے کے مستحق ہیں؟اگر وہ صدق دل سے ایسا کریں تو یقینا ان کے دل انہیں گواہی دیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمادے تو یہ اُس کی محض شان کریمی ہے جب کہ وہ اس کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔
ارشاد باری تعالیٰ تو یہی ہے کہ ترجمہ”اے مسلمانوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ احتیار کرو“ چناچہ اگر ایک مسلمان تیس دن روزے رکھ کر بھی تقویٰ اختیار نہ کرسکا ہو تو گویا وہ سمجھ لے کہ اُس نے ناصرف تیس دن محض فاقے کیے، بلکے وہ حقوق اللہ پورے کر سکا نہ حقوق العبادکیونکہ اس تناظر میں اس سال پاکستان میں تو احترام رمضان اس دیدہ دلیری سے پامال کیا گیا کہ اجتماعی دعا کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کا صدقے کسی عذاب سے محفوظ رکھے اور تو اور راقم بلاناغہ خضور داتا گنچ بخشؒ کے مزار کے سامنے سے گزرتے ہوئے کھلی آنکھوں دیکھتا رہا ہے کہ دن بھر غریبوں میں لنگر تقسیم کرنے کے نام پر جس طرح حرمت صیام کا جنازہ نکلتا رہا ہے اس کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں کہ ایسا ہی ہمارے ہاں دیگر درگاہوں اور مزارات پر بھی ہوتا ہے۔ یہ جانتے بھوجتے ہوئے کہ شرعی تقاضوں کے مطابق روزہ نہ رکھنے والوں کو صرف مخصوص مقامات پر اس انداز میں کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے کہ ان کے اس عمل سے حرمت رمضان پامال ہو نہ روزہ داروں کے جذبات مجروح ہوں مگر ہمارے ہاں ملک بھرمیں جس طرح امسال دن بھر ہٹے کٹے لوگ سورج طلوع ہونے سے لے کر روزہ افطار ہونے تک انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کھانے پینے کے علاوہ پان چباتے رہے اور سگریٹوں کے کش لگاتے رہے ہیں ان حالات میں پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسا تو غیر مسلم معاشروں میں بھی نہیں ہوتا ہو گا۔ان ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس جرم میں روزہ خوروں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے بھی مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بھر سے رمضان آرڈیننس منسوخ ہو چکا یا وطن عزیز اسلامی نظریاتی ریاست کے بجائے ایک سیکولر سٹیٹ بن گیا ہے؟
رہی بات صدقہ وخیرات تقسیم کرنے کی تو اس میں بھی اجتماعی صورت حال یہی نظر آرہی ہے کہ ہم مستحقین کو تلاش کرنے کے بجائے پیشہ ور گداگروں میں صدقہ خیرات تقسیم کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔جس طرح رمضان المباک تاجروں کی کمائی کا مہینہ بن چکا ہے اسی طرح پیشہ ور بھکاریوں کے لیے بھی ماہ صیام دولت سمیٹنے کا مہینہ کہلاتا ہے۔ یہ صورت حال مستحقین کے شرعی حقوق پر کھلا ڈاکہ ہے۔بظاہر پنجاب حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کر رکھا ہے کہ پیشہ وربھکاریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجا جائے مگر قانون نافذکرنے والے ادارے ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس حوالے سے معاشرے میں قانون کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی یہ ایسے اجتماعی معاشرتی جرائم ہیں جس پر ہمیں ناصرف بارگاہ الہٰی میں اجتماعی توبہ کرنی چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم بحیثیت مسلمان رمضان المبارک کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور فیوض وبرقات سمیٹنے کے حقدار ہیں؟ اگر ہم نے حرمت رمضان پامال کرنے پر اجتماعی توبہ نہ کی تو یہ یقینا گناہ کبیر ہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حدوداللہ توڑنے کے جرم میں نشان عبرت نہ بنادے۔