Site icon MASHRIQ URDU

کیا رمضان آرڈیننس منسوخ ہو چکا؟

عصر حاضر کے اہل قلم

کیا رمضان آرڈیننس منسوخ ہو چکا؟

رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں سمٹینے کا مہینہ ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ اہل اسلام جو اس ماہ مقدس سے بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنا دامن نیکیوں سے بھر لیتے ہیں۔ جو مسلمان شرعی تقاضوں کے باعث ایسا نہیں کر پاتے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق ارزانی عطا فرمائے کہ اگر وہ علیل ہیں تو صحت یاب ہو کر اور اگر وہ طویل سفر پر ہیں تو منزل پر پہنچ کر اس فرض کی قضا ادا کرسکیں۔
گنتی کے ان ایام میں جہاں شرعی احکامات کے مطابق روزہ رکھنا فرض ہے اسی طرح اس مقدس ایام کا احترام بھی لازم ہے خاص طور پر ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر اس بات پر جتنا بھی کفےِ افسوس ملا جائے کم ہے کہ امسال جس انداز میں ہمارے ہاں ماہ صیام کی حرمت کو دیدہ دلیری سے پامال کیا جارہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں عملاً ہمارا دین اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ رمضان المبارک میں مسافروں اور بیماروں کو یہ استثنا ء حاصل ہے کہ وہ سرکاری طور پر کئے گئے انتظامات کے تحت مخصوص مقامات جیسے کہ ریلوے سٹیشن، تمام ہسپتال اور بس سٹاپوں پر پردے کے اندر اس احتیاط سے کھا پی سکتے ہیں کہ روزہ داروں کے جذبات مجروح نہ ہوں مگر اسلامی نظریاتی پاکستان میں حالات ایسے ہیں کہ عوام کی اکثریت، جن میں نوجوان طبقہ زیادہ ہے، روحانی، جسمانی اور ذہنی طور پر جان لیوا امراض میں مبتلاء ہو چکا ہے یہ لوگ دن کا آغاز ہوتے ہی گلیوں، بازاروں، چوک چوراہوں اور سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے ان مقدس ایام کے حوالے سے احکامات الٰہی سے سرتابی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر متضاد یہ کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ ماہ صیام کی حرمت کی اس انداز میں پامالی تو غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتی کہ روزہ خور کھلے عام دن بھر پان چباتے، سگریٹ کے کش لگاتے اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء اس سینہ زوری سے استعمال کرتے نظر آتے ہوں، یہ خود سری قوم کو عذاب الٰہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں موجود درگاہوں اور آستانوں کے گرد و نواح میں جو کچھ ہوتا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کہ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا بھی اس پر خاموش ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں ضیاء الحق دور سے نافذ رمضان آرڈیننس کا اطلاق ختم ہو چکا ہے اگر یہ آرڈیننس نافذ ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہو رہا۔
چند برس قبل تک تو ماہ صیام کے پہلے عشرے میں بھی ایسی خبریں نظر نواز ہونا شروع ہو جاتی تھیں کہ پولیس اہلکار روزہ خوروں کے خلاف کارروائی شروع کر دیتے تھے گو کہ یہ کارروائیاں بھی ناکافی ہوتی تھیں پھر بھی ان اقدامات سے روزہ خوروں پر یہ خوف طاری رہتا تھا کہ کہیں اس جرم میں گرفتار ہو کر معاشرے میں ذلیل ہی نہ ہو جائیں تاہم ان دنوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رمضان آرڈیننس کیا، اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ختم ہو چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نا صرف ارباب اختیار گنتی کے ان دنوں کی حرمت کی پاسداری یقینی بنائیں بلکے گھروں میں والدین، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور مساجد میں علمائے کرام اس تناظر میں اپنی دینی، قانونی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں تاکہ ملک بھر سے یہ منفی سرگرمیاں رک سکیں اور پتہ چلے کہ ہم ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے مسلمان شہری ہیں۔ روزہ رکھنا یا نہ رکھنا یہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے جو روزہ رکھے گا یقینا اجر عظیم پائے گا جو رکھنے کی طاقت و توفیق رکھتے ہوئے روزہ نہیں رکھے گا اس پر بھی ماہ صیام کا احترام لازم ہے جو لوگ اس ضمن میں سرکابی کے مرتکب ہو رہے ہیں انہیں راہ راست پر لانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ میڈیا سے وابسطہ دوست احباب کو بھی چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی اخلاقی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ ٹیلی ویژن چینلز پر ان منفی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے پروگرام ترتیب دیئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خواب غفلت کے شکار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمے داری سے عہدہ برا ہونے کا احساس نہ ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں احباب اختیار اور عوام کو کم از کم اپنے ایمان کے تیسرے درجے کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اجتماعی طور پر گنتی کے ان چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اس انداز میں سمیٹیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائے آمین یارب العالمین۔

منشیات کی لعنت اور مافیا کا راج

Exit mobile version