Site icon MASHRIQ URDU

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعدکس کے گھر جائے گا

بپھرے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنا کبھی بھی ممکن نہیں رہا خواہ وہ مہنگائی کا سیلاب ہو، فحاشی کا سیلاب ہو، ٹیکسوں کا سیلاب یا پھر بپھرے ہوئے پانی کا سیلاب۔ وطن عزیز آزادی کے بعد سے ہی خوفناک سیلابوں کی زد میں رہا ہے۔ یادش بخیر متحدہ پاکستان میں یہ ذمہ مشرقی پاکستان نے اٹھا رکھا تھا اور مغربی پاکستان اس وقت جیسے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا تھا۔ زیادہ تر وہاں سیلاب سمندری طوفانوں کی وجہ سے آتے تھے اور ساحلی شہر غرق ہو جاتے تھے اس قدر جانی و مالی نقصان ہوتا تھا کہ بیرونی امداد ملنے کے باوجود حکومت وقت کو پٹرول سے لیکر سینما کے ٹکٹ تک ہر چیز پرٹیکس لگانے پڑتے تھے۔ مشرقی پاکستان والے تو ہم سے روٹھ گئے لیکن انکے سیلابوں کی کٹوتی ہمارے روزمرہ کے اخراجات سے آج بھی ہو رہی ہے جبکہ ان سیلابوں کا بنگلہ دیش حکومت نے خاطرخواہ انتظام بھی کرلیا ہے لیکن ہم ارض پاک پر گئے دنوں کی یاد کے طور پر ابھی بھی دھوم دھڑکے سے فلڈ ریلیف ٹیکس کاٹ رہے ہیں۔ ہماری مستقل مزاجی تو چار دانگ عالم میں مشہور ہے۔ جو قدم ایک مرتبہ اٹھا لیا پھر واپس نہیں لینا۔
بات سیلابوں کی ہورہی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وہ سیلاب جو کبھی مشرقی پاکستان میں آیا کرتے تھے ۱۹۷۱ کے بعد انہوں نے مغربی پاکستان کا منہ دیکھ لیا۔ کبھی پدما اور میگھنا بپھرا کرتے تھے سو وہ ذمہ داری سقوط مشرقی پاکستان کے بعد راوی، چناب اور سندھ نے سنبھال لی۔ سب سے پہلا خوفناک سیلاب ۱۹۷۳ میں آیا جب مقبوضہ کشمیر میں دریائے سندھ غضبناک ہو کر کناروں سے بہہ نکلا اور صوبہ پنجاب تقریباً ڈوب گیا۔ ۱۹۹۸ کا جنوبی پنجاب اور بلوچستان کا سیلاب کسے بھولا ہو گا جب ۳۰۰ کے قریب اموات ہوئیں ۱۵۰۰ افراد لاپتہ ہوئے۔ تقریباً ۳۷۰۰ گھر تباہ ہوئے اور۲۵۰۰۰ ہزارلوگ بے گھر ہوئے۔ سیلاب تواتر سے تقریباً ہر سال آتے رہے اور تباہی اور بربادی کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ سینکڑوں ہزاروں افراد موت کی نیند بھی سوتے ہیں، فصلیں بھی برباد ہوتی ہیں ہزاروں خاندان بے گھر بھی ہوتے ہیں اور کوئی بھی حکومت سوائے لالی پوپ دینے کے اور کچھ نہیں کرتی۔ اگرکسی حکومت نے کبھی کچھ بھلائی کے اقدامات کئے بھی تو بعد میں آنے والی حکومت نے ان اقدامات پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ وہ تمام منصوبے داخل دفتر کر دیئے۔
عمران خان کی حکومت نے قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے اتھارٹی بنائی فلڈ ریلیف اور آبادکاری کے پروگراموں کیلیئے فنڈ مختص کئے، نکاسی کے منصوبے اور بندوں کی تعمیر کی، بین الاقوامی اداروں کی معاونت حاصل کی لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے نہ صرف وہ تمام منصوبے اور اقدامات سیاست کی نذر کر دیئے بلکہ ان منصوبوں کیلئے مختص فنڈز کو بھی اللوں تللوں کی خاطر اڑا دیا۔ رہے نام اللہ کا۔ جنہوں نے مصیبتوں سے اکٹھا کیا ہوا زرمبادلہ نہیں چھوڑا ان کیلئے یہ رقومات کیا چیز تھیں۔ بات سیلابوں کی ہورہی تھی۔ ایک وقت آیا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے ریلے کےسامنے پانی کا سیلاب بھی ماند پڑنے لگا۔ اور پھر بپھرے ہوئے پانیوں کو دوبارہ غصہ دلانے کیلئے کرپشن اور بدعنوانی کے دلدادہ بھائی لوگوں نے اندھیر نگری مچا دی۔ اگر اس میں لینڈ مافیا کو قابل الزام قرار دیں تو ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں، بیوروکریسی اور نچلے درجی کے بابوؤں کو بھی معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں اور جنہوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کیا۔ چند سال پہلے ایک نام بہت مشہور ہوا تھا ’’لاہور کا پاوا، اختر لاوا‘‘۔ بس وہی حال یہاں بھی تھا جس کے ہاتھ میں چند ارب روپے آئے اس نے کوئی نہ کوئی پاوا ڈھونڈھ لیا، کسی کو اسٹیبلشمنٹ میں، تو کسی کو بیوروکریسی میں بآسانی کوئی نہ کوئی پاوا مل گیا۔ جنہیں رنگین پاوے نہیں ملے انہوں نے دیسی پاوؤں سے کام چلایا۔ ملتان سے پنڈی تک سوسائیٹیوں کے جال بچھنا شروع ہوگئے۔ بڑے شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیوں میں بیٹھے بڑے بڑے افسران نے ٹھپے لگا لگا کر این او سی جاری کرنے شروع کر دیئے۔ انکا بھی کوئی قصور نہیں ہوتا۔ ہر کسی کی گردن پر کسی نہ کسی سیاستدان، کسی بااثر شخصیت نے انگوٹھا رکھا ہوتا ہے۔ ان بااختیار لوگوں کو حکم بجا لانے مین بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے، ارباب اختیار کو خوش بھی کر دیا اور اپنی پانچوں کڑاہی میں بھی ہوگئیں۔

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

سنگ دلی کی انتہا دیکھئے کہ کسی نے بھی ماسٹر پلان دیکھ کرکبھی اس بات کا اندازہ نہیں لگایا کہ ہاوسنگ سوسائٹی کیلئے جو قطعہ دیا جا رہا ہے آیا ٹاؤن پلاننگ کے حساب سےوہاں کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ نتیجتاً ملک بھر میں عموماً اور پنجاب میں بالخصوص کنکریٹ اور سریئے کے ڈھیر بڑھتے گئے اور سبزہ ختم ہوتا گیا۔ کسی نے بھی ۲۰۰۵ کے زلزلہ سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ اور اپنی اپنی سوسائٹی میں پانی کے قدرتی نالوں کے راستوں کی عارضی بھرائی کرکے پلاٹ بنائےاور سوسائٹی کھڑی کردی۔ مارگلہ ٹاور بھی ایسی ہی بھربھری زمین پر کھڑا تھا سو زمین بوس ہوا۔ دو اڑہائی سال پہلے آنے والے ایک ہلاکت خیز سیلاب نے بھی اسلام آباد کے ڈی اور ای سیکٹروں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ سوسائٹی مالکان تو پلاٹ بیچ کر مبرا ہوگئے تھے لیکن پلاٹ خریدنےوالے افراد جو اپنے گھروں میں پانی گھسنے اور گاڑیوں کے بہہ جانے پر سراپا احتجاج تھے انہوں نے اس وقت تو موقع کا پلاٹ اور مارگلہ پہاڑوں کے حسین نظاروں کی خاطر پلاٹ چپ کرکے خرید لیا یہ نہیں چیک کیا کہ کہیں ان کا پلاٹ کسی برساتی نالے کے راستے پر تو نہیں آرہا لیکن جب سانپ گذر گیا تو لکیر پیٹنی شروع کر دی۔ سوسائٹی مالکان نے ایک ڈھیلی ڈھالی تسلی دی کہ انہوں نے سوسائٹی کی حفاظت کیلئے بند بنا دیئے ہیں اور برساتی نالے اپنا رخ موڑ لیں گے لیکن جس طرح اونٹ نہایت کینہ پرورجانور ہے اوراپنا انتقام نہیں بھولتا بلکل اسی طرح برساتی نالے کا پانی بھی اپنا راستہ ہرگز نہیں بھولتا خواہ عشرے بیت جائیں۔ اور اس کی مثال تازہ برساتی سیلاب ہے۔
آج تک تو میدانی علاقوں کو زیر آب آتے دیکھا تھا لیکن شمالی پنجاب جیسے اونچے علاقے پہلی دفعہ تباہی کی نذر ہوتے دیکھے ہیں۔ کبھی کسی نے چکوال میں سیلاب کی خبر سنی تھی؟ کبھی نہیں لیکن اس دفعہ چکوال کا سیلاب بھی بریکنگ نیوز بنا۔ راولپنڈی اسلام آباد کا الگ برا حال ہوا۔ جن حفاظتی بندوں پر حکومت کو مان تھا بپھرے ہوئے پانی نے انکا ناس مارنے میں دیر نہیں لگائی۔ اور حکومتیں ہماری ایسی بے حس کہ کسی نے بھی ذمہ داری قبول کرنے کی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پنجاب کی ٹک ٹاکر وزیراعلیٰ کے متعلق سوشل میڈیا پر وہ میم بہت گردش کر رہا ہے جس میں ایک شخص کہہ رہا ہے ’’شعیب جن علاقوں مین پانی زیادہ کھڑا ہے میڈم کو ان علاقوں کی لوکیشن بھیجو۔ سرینا کے علاقے کا فلائی اوور اور ایف ایٹ کی ’’ریکارڈ مدت‘‘ میں بننے والی شاہراہیں زبان حال سے پکار رہی ہیں۔ ایمبیسیوں کا علاقہ جو عام عوام کیلئے نوگو ایریا ہے، وزیر داخلہ کی کرم نوازی سے سیلابی پانی عوام کی نمائندگی کرنے وہاں بھی جا پہنچا۔
ابھی تو قدرت پچھلے دس بارہ سالوں میں ہمیں خاصے ثبوت فراہم کر چکی ہے کہ وہ کس طرح ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کر دیتی ہے لیکن ہم پھر بھی نہیں سمجھے۔ آج چھوٹی سوسائٹیوں کی باری ہے کیا خبرکل ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن، لیک سٹی جیسے پوش علاقوں کی باری آجائے۔ پھر تیرا کیا ہوگا کالیہ؟
الطاف پرواز مرحوم کے ایک شعر کا ایک مصرعہ مجھے بہت ہانٹ کر رہا ہے.
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
ٌٌٌسہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔

لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے؟

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
Exit mobile version