Site icon MASHRIQ URDU

کاش ایسا ہو جائے

Aslam Raja
محمد شہزاد اسلم راجہ

کاش ایسا ہو جائے

میں صبح جب اٹھا تو صحن میں میری نظر ایک ایسے کاغذ پر پڑی جسے دیکھتے ہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کسی ڈائری کا  ورق ہے اور باہر سے کوئی بچہ اٹھا لے آیا ہوگا ، مجھے چونکہ لوگوں کے خیالات اور مشاغل جاننے کا بہت شوق ہے اس لئے بعد میں پڑھنے کا سوچ کر میں نے اسے رکھ دیا، سارا دن کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس طرف کوئی دھیان نہ گیا رات کو سونے سے پہلے اس طرف دھیان گیا تو میں اسے الماری سے نکال کر لے آیا اور پڑھنے لگا لکھا تھا ۱۲۰ اپریل ۱۹۹۷ء آج صبح سے ہی موسم خوشگوار تھا ہم اپنی نانی کے گھر تھے۔ خوب انجوائے کیا مگر آج نانی کے گھر ہونے والے واقعہ نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ ہوا یوں کہ آج سے پانچ سال پہلے آپی نے نانی سے بد زبانی کی تھی آپی کو نانی نے منہ بولی بیٹی بنایا ہوا تھا آپی کی امی کے مرنے کے بعد نانی نے آپی کو پالا پوسہ تھا۔ نانی کو یہی دکھ تھا کہ ہم نے اسے (آپی) کو پالا پوسہ اور اب یہ ہم سے بد زبانی کرتی ہے ۔ یوں نانی آپی سے ناراض ہو گئیں اور قطع تعلق کر لیا ۔ یہاں تک کہ جب ان ( آپی ) کے شوہر سعودی عرب سے واپس آئے تو نانی کے لئے تحفہ میں کچھ کپڑے اور دوسری چیزیں لائے مگر نانی نے واپس کر دیں اور سخت لفظوں میں ہر تعلق جو رنے سے منع کر دیا ۔ آج پانچ سال بعد آپی نانی سے معافی مانگنے آئیں مگر نانی نے معاف کرنے سے انکار کر دیا کہ اب ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ تم اب ہمارے گھر آنا آپی بیچاری رو رو کر واپس چلی گئی !! میں یہاں تک پڑھ کر سوچنے لگا ، مجھے اس میں سوچنے والی کوئی بات نظر نہیں آئی مگر میں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا لکھا تھا ۔۔۔۔۔ اور میں سوچنے لگا کہ نانی نے آپی کو بد زبانی کرنے پر معاف نہ کیا تو پھر آج ہمارے ایمان کو کیا ہوا۔ ہماری عزتیں کہاں مر گئیں ۔ جب ہماری معصوم بہنوں کی کشمیر فلسطین، شام اور مصر میں عزتیں لوٹی گئیں جب ہمارے معصوم بچوں کے حلقوم پر ہے درودی سے چھریاں پھیر دی گئیں ۔ جب ماں کے سامنے اس کے جگر گوشے ختم کر دیے گئے ۔ جب بہن کے سامنے اس کی عزت کا محافظ بھائی تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا ۔ سہاگنوں کے سہاگ لٹ گئے ۔۔۔ اف ۔۔۔ اتنا ظلم و ستم ہو گیا ۔ اتنا وحشیانہ سلوک ہو گیا مگر ۔۔۔ پھر بھی ہم نے ابھی تک ان دشمنوں سے کوئی تعلق نہیں توڑا انڈین ڈرامے اور فلمیں ہمارے گھروں میں بڑے زور وشور سے چلتی ہیں ڈش انٹینے اور کیبل ہمارے گھروں کی زینت ہیں مغربی فیشن کو اپنانا سٹیٹس کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری بہنیں ، بیٹیاں انڈین جیولری ، جوتے اور مغربی طرز کے کپڑے پہن کر سر عام کھلے بالوں کے ساتھ اپنے اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ قہقہے لگا کر فخر محسوس کرتی ہیں ۔ ہمارے اسلامی اقدار کو ہماری ثقافت کو ختم کرنے کے حربے کئے جا رہے ہیں ۔ ہمارے ہیرو اور آئیڈیل حضرت محمد ﷺ صحابہ کرام، حضرت قائد اعظم اور حضرت علامہ اقبال کے بجائے انڈین اور Adult ہیرو ہیں اور ان کے ہی سٹائل میں بول چال کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نانی نے مرنا جینا علیحدہ کر لیا ہم ( مسلمانوں ) پر اتنے ظلم ڈھائے گئے اور ڈھانے کے مزید اقدامات ہو رہے ہیں اور ہم اطمینان سے بیٹھے ہیں ۔ کاش ہماری سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھے، ہمارے حکمرانوں کے خواب خرگوش کے مزے ختم ہوں ۔ کاش کہ ہماری نوجوان نسل کی غیرت جاگ جائے اور دشمن سے ہر قسم کا تعلق توڑ ڈالیں کاش ایسا ہو جائے ۔۔۔ آہ کاش !!!! یہ سب پڑھنے کے بعد مجھے اپنے گالوں پر کوئی گرم چیز بہتی ہوئی محسوس ہوئی ہاتھ لگانے پر پتہ چلا کہ وہ آنسو تھے جو ظلم وستم کی داستان پڑھ کر بے اختیار میری آنکھوں سے نکل پڑے۔

تجاوزات کا مسلہ درد سر بن  چکا

Exit mobile version