چنگیز خان! کامیاب بادشاہ جس نے آدھی دنیا فتح کی!
چنگیز خان ظلم و بربریت، سفاکیت، خون، موت اور جنگ کی یاد تازہ کردینے والا ایک نام ہے۔ وہ ایک بے رحم شخص تھا، نہ صرف خود بے رحم تھا بلکے اپنے سپاہیوں کو بھی بے رحمی سکھائی۔ اس سفاک سپہ سالار نے اپنی زندگی میں تقریباً تمام جنگیں جیتیں اور ہر جنگ میں قتل عام کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔چنگیز خان کے بارے یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ہر زبان زد عام ہے۔ اس نظریہ سے ہٹ کر اُس کی زندگی کے وہ حالات جن پر لکھنے والوں نے آج تک توجہ نہیں دی اگر اُن پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک بہادر، جفاکش، قوم کا وفادار، بہترین منتظم، جہان دیدہ سپہ سالار،جنگی حکمت عملی کا ماہر، فاتح اور بہترین قانون دان بھی تھا۔ جس نے بچپن ہی میں اپنے خاندان کی بقاء کے لیے سخت ترین حالات کا انتہائی بہادری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی
چنگیز خان کا اصل نام تموجن تھا، (یعنی فولاد جیسا مظبوط، سنگ دل)اس کی اصل تاریخ پیدائش کے بارے مورخین کی متضاد آراء ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک غیر معروف قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ مورخین نے چنگیز کی پیدائش کے تین تاریخیں لکھی ہیں، چنگیز خان پر لکھی جانے والی تاریخ میں سب معتبر تاریخ ”عطاء ملک جوینی“کی مانی جاتی ہے، عطاء ملک کے والد بہاالدین بذات خود محمد جلال الدین اور بعد میں اغدائی خان کے صاحب دیوان رہے۔جوینی نے اپنی زندگی میں دومرتبہ منگولیا کا سفر کیا اور ہلاکو خان کے دور حکومت میں اہم عہدہ پر تعینات رہے، جوینی بھی اپنی کتاب میں چنگیز خان کی تاریخ پیدائش پر کوئی ختمی بات نہیں کرسکے۔
تیرہویں صدی کے تاریخ دان ”رشید الدین فضل اللہ ہمدانی“(1247تا1318) کی مشہو ر زمانہ کتاب”جامع التواریخ“ اور چین کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ چنگیز خان کی تاریخ پیدائش 1155ء ہے۔ رشید الدین ہمدانی چنگیز خان کے بیٹے تلوئی خان کے پوتے مسلمان بادشاہ محمود خان غازان( 1271 تا 1304) کے دور حکومت میں معروف تاریخ دان تھے۔ انہوں نے غازان کی فرمائش پر منگول تاریخ مرتب کی۔ منگول تاریخ پر لکھی کتاب History of Yuan کے مطابق چنگیز خان1162ء میں دریائے آنان کے علاقہ میں پیدا ہوئے۔ اس کی والدہ ”ہیلون“ اور والدکا نام”یسوکائی بہادر“تھا۔چنگیز خان کے والد بھی ایک بہادر جنگجو اور اپنے قبیلے ”بورجیگین“کے سردار تھے،چنگیز خان کے تین بھائی اور ایک بہن تھی، اس کے والد یسوکائی کی پہلی بیوی سے اُس کے دو سوتیلے بھائی بختار اور بیلگوتی تھے۔ منگولوں میں چنگیز خان یعنی تیموجن کی پیدائش پر مختلف قسم کی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک کے مطابق یسوکائی کا نطفہ ایک آسمانی بجلی نے ہیلون کے رحم میں رکھا تھا۔ منگول چنگیز خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”جب تموجن پیدا ہوئے تو اُن کی ایک مٹھی میں خون کا لوٹھڑا تھا“۔
پچپن میں عقاب سے شکار
تموجن نے چھوٹی عمر ہی میں گھڑ سواری، تیر اندازی،تلوار چلانا اور عقاب سے شکار کرنے میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی،کیونکہ یہ ہنر قبائلی رہنماؤں کے لیے قابل فخر تصور کیے جاتے تھے۔ تموجن سفید ان پڑھ تھا اس نے کبھی لکھنا، پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مضبوط تھا لیکن اس کا بھائی قصار جو اس سے 2 سال چھوٹا، زیادہ طاقتور اور بورجیگین قبیلے کا سب سے مشہور تیر انداز تھا۔
نو سال کی عمر میں شادی
یسوکائی علاقے کے دوسرے نمبر پر سب سے طاقتور قبیلے”بوسکور“کے سردار”ڈائی سی چن“ کی 10 سالہ بیٹی بورٹے یا بورتے(1161ء تا 1230ء) کو تیموجن کی بیوی بنانا چاہتا تھا۔ جب ڈائی سی چن کو معلوم ہوا کہ یسوکائی شادی کے لیے صرف ایک گھوڑا پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس نے ناراض ہو کر ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ لیکن ”الچی نویان“ ڈائی سی چن کے عزیر ترین بیٹے نے تموجن سے متاثر ہو کر اپنے والد سے گزارش کی کہ وہ اُسے خاندان میں قبول کر لیں۔ بیٹے کی فرمائش پر ڈائی سی چن نے ایک بڑی رقم کے عوض شادی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ مگر شرط رکھی کہ یسوکائی کوشادی سے قبل ہی رقم اداکرنا ہو گی۔ دونوں جانب سے رضامندی کے بعدڈائی سی چن نے رواج کے مطابق تیموجن کو اپنا داماد بنا کر اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ اس وقت تیموچن کی عمر صرف 9 برس تھی۔
باپ کی موت اور مصائب کا آغاز
ڈائی سی چن کا داماد بننے کی رضا مندی کے بعد تیموچن کو نو سال تک(جب تک وہ بالغ نہ ہوجاتا) اپنی منگیتر کے قبیلے ”بوسکور“ ہی کے ساتھ رہنا تھا۔ اس دوران تموجن کے والد کو ہیلون کے قبیلے کے سردار نے ہیلون کے اغو کی سابق رنجش پر کھانے میں زہر دے کر قتل کر دیا۔ باپ کے قتل کردیئے جانے کے بعد تموجن کی جان کو بھی خطرات لاحق ہوگئے تھے جس پر اس کے باپ کے کچھ دوست تموجن کی مدد کو پہنچے اور اسے روپوش ہو جانے کا مشورہ دیا۔ اس طرح نو سالہ تموجن اپنی اور خاندان والوں کی جان بچانے کے لیے صحرا نشین ہو گیا۔ بیاباں میدانوں اور صحرا میں حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے چلے گئے۔ اس صورتحال میں تموجن نے اپنی شکار کرنے کی صلاحیتوں سے خاندان کے افراد کے کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کیا۔ تموجن کے سوتیلے بھائیوں بختار اور بیلگوتی جو جسمانی اور طاقت کے لحاظ سے تموجن کے سگے بھائیوں سے زیادہ مظبوط تھے، انہوں نے تموجن کے شکار پر قبضے جمانا شروع کردیا۔
تموجن کا بھائی کو قتل کرنا
ایک دن بختار نے تموجن کی شکار کی ہوئی ایک مچھلی کھالی، جس پر تموجن نے اپنے سگے بھائی قصار کے ساتھ مل کر بختار کو گھیر لیا۔تموجن اور بختار میں لڑائی ہوئی جس کے نتیجے میں بختار مارا گیا۔تاریخ میں اس کی ایک اور ممکنہ وجہ یہ بھی ملتی ہے کہ تیموجن نے بڑے بھائی بختار کو بورجیگین قبیلے کی مستقبل کی قیادت کے لیے ممکنہ حریف سمجھتے ہوئے قتل ڈالا ہوکیونکہ بختار یسوکائی کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کے ناتے خود کو بورجیگین قبیلے کی سرداری کا حقدار سمجھتا تھا، مگر تموجن نے کبھی دوسرے سوتیلے بھائی بیلگوتی سے خطرہ محسوس نہیں کیا تھا۔ بیلگوتی بعد میں چنگیز خان کے سب سے وفادار ساتھیوں میں سے ایک بن گیاتھا۔بختار کے قتل پر تموجن کی ماں ہیلون نے اپنے بیٹوں کی سخت سرزنش کی تھی۔
تیموچن کی غلامی کا دور
منگول قبائل کا نومنتخب سردار”ترگوتائی“ تموجن اور اس کے خاندان کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرنے لگا تھا۔ اس نے ہیلون خاندان کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے بتایا گیا کہ تموجن اور اس کا خاندان نسبتاً مستحکم صورتحال میں ہے۔اس بات نے گوتائی کو مذید پریشان کردیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح تموجن کو مار دیا جائے مگر یہ خطرہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ تموجن کے قتل پر اس کے بھائی خاموش نہ رہیں گے اورلازمی بدلہ لیں گے اور اگر وہ پورے خاندان کو جان سے مار ڈالتا ہے تو منگول قوم کے سامنے خود کو ایک اچھا اور عقلمند رہنما ثابت کرنا مشکل ہو جاتا۔ترگوتائی کو بختار کے قتل کا علم ہوا تو اس ساری پریشانی کا ایک حل نظر آگیا۔اُس نے تموجن کو بختار کے قتل کے جرم میں پکڑنے اور غلام بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر عمل کرنے کی غرض سے وہ تموجن خاندان سے ملا،اس وقت تیموجن شکار پر گیا ہوا تھا۔ ترگوتائی نے قصار اور اس کے بھائیوں سے بات کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ صرف تیموجن کو پکڑنا چاہتا ہے۔تموجن کو اس ساری صورت حال کا علم ہوا تو وہ جنگل میں روپوش ہوگیا۔ چھ دن تک ترگوتائی کے بندے تموجن کو جنگل میں تلاش کرتے رہے مگر جب وہ جنگل سے فرار ہونے لگا توانہوں نے بالآخر تموجن کو پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔اپنے قبیلے میں پہنچ کر ترگوتائی نے تموجن کی گردن میں طوق ڈال کر قید کردیالیکن تیموجن قید کے دوران کچھ جنگجوؤں کو اپنا ہمدرد بنانے میں کامیاب ہوگیا اور ان کی مدد سے بھاگ کر اپنے خاندان کے پاس واپس آ گیا۔ اس قید کی مدت کا اصل دورانیہ تاریخ میں نہیں ملتا،مگریہ چند ماہ سے زیادہ نہیں تھا۔
تیموچن ایک عظیم سپہ سالار کے روپ میں
قید سے رہائی کے بعد تیموجن اپنے بہن بھائیوں کے پاس واپس آ گیا تھا لیکن اس وقت تک خاندان انتہائی غربت کی حالت میں پہنچ چکاتھا۔ان کے پاس صرف چند گھوڑے تھے وہ بھی نامعلوم چور کھول کر لے گئے۔ چوروں کا پیچھا کرتے ہوئے تیموجن کی ملاقات ”بورچو“ نامی شخص سے ہوئی جو بعد میں اچھی دوستی میں بدل گئی۔ یہ رابطہ اگلے کئی برسوں تک تموجن کی عظیم فتوحات تک جاری رہا۔ بورچو نے تیموجن کو اپنے قبیلے میں متعارف کرایا،جلد ہی تیموجن اپنی بہادری اور مظبوط فیصلوں کی وجہ سے قبیلے کے بڑے جنگجوں میں شمار کیا جانے لگا۔ تموجن نے قبیلے کے دوسرے مردوں کے ساتھ مل کرایک بڑا گروہ تیار کرلیا تھا۔ اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اوربہادری کے پیش نظر بوجیگین قبیلے کے لوگوں نے تموجن میں اپنے ممکنہ رہنما کو دیکھنا شروع کردیا اور اس کے گروہ میں شامل ہونے لگے۔تموجن کے گروہ میں اُس کے سسر کے قبیلے کے لوگ بھی شامل ہوتے گئے اب تموجن ایک بڑے جنگجو کے طور پرمانا جانے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب منگول قبیلے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، موقع ملتے ہیں ایک دوسرے کا قتل عام کر دیا کرتے۔
جموخہ سے دوستی اور پھر دشمنی
1179 یا 1180 ء،میں تموجن کے پرانے دشمنوں جنہوں نے اس کے باپ کو قتل کیا تھا اُنہیں بدلہ لینے کاموقع مل گیا، جو ابھی تک یسوکائی کے ہاتھوں ہیلون کے اغوا کو نہیں بھولے تھے۔ 300 آدمیوں کے ایک گروہ نے تیموجن کے خیموں پر حملہ کیا اور اس کی بیوی بورتے کو اغوا کرکے ساتھ لے گئے۔ اس دوران تیموجن کے دو بڑے قبیلوں کے سردار”جموخہ“ اور ”تغرل“ کے ساتھ اچھے تعلقا ت قائم ہوگئے، جموخہ نے تموجن کی اغواہ شدہ بیوی کو واپس لانے میں بھی مدد کی۔اگلے دو سال تک تموجن اور جموخہ میں بہت اچھے تعلقات رہے۔ منگول کہاوت کے مطابق وہ ایک دوسرے پر اس حد تک اعتبار کرتے تھے کہ رات کو سونے کے لیے ایک بستر ہی استعما ل کیا کرتے۔ مگر پھر حالات نے کروٹ لی اور دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ تاریخ میں ان دونوں کی دشمنی کی اصل وجہ آج تک کسی کے علم میں نہیں ہے۔
منگولوں کا سردار منتخب
تیموجن اور جموخہ کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر تنازع واضح طور پر ناقابل حل تھا۔ مورخین کے مطابق اس تنازع کی سب سے بڑی ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں منگول قبائل کی قیادت کے لیے ایک دوسرے کو حریف سمجھنے لگے۔ 1186ء میں تمام منگول قبائل کا ماسوائے ”تائی چونگیڈز“قبیلے کے”قرلتائی“ (مجلس) منعقد ہوا تاکہ نئے سردار کا چناؤ کیا جاسکے۔ قرلتائی واضع دو حصوں میں تقسیم نظرآئی، ایک حصہ جو دولت اوررتبے کے لحاظ سے بڑے لوگوں پر مشتمل تھا جموخہ کے حق میں تھا، جب کہ دوسرا حصہ جس میں غریب اور چرواہے شامل تھے وہ تموجن کے حمایتی تھے۔ مجلس میں تجویز دی گئی تھی کہ ماضی کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر منگول عوام کی بہتری کے پیش نظر فیصلہ کیا جائے گا،یہ تجویز بھی تموجن کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بنی۔ جب کہ اُس وقت کے ایک بڑے نجومی نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں تموجن کے لیے ابدی نیلا آسمان بنتے دیکھ رہا ہوں“ جس پر وہ لوگ جو کبھی تموجن کے مخالف تھے انہوں نے بھی ا س کے حق میں فیصلہ دیا۔ خاص طور پر ماضی کے دشمن جن میں قابیل خان، قتولا کی اولاد، یہاں تک کہ مونگلک جنہوں نے پہلے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا تیموجن کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ نتیجتاً اکثریتی فیصلہ تموجن کے حق میں آیا اور اس وقت تموجن کو منگولوں کا خان یا کم از کم برجیگین قبیلے کا خان منتخب کر لیا گیا۔
قوم کو ایک جھنڈے تلے لانا
اقتدار میں آنے کے بعد چنگیز خان نے جموخہ سمیت تقریباً تمام بڑے منگول قبائل سے جنگ کی۔1187ء جموخہ سے جنگ میں چنگیز خان کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، جموخہ نے چنگیز خان کے 70 قیدیوں کو گرم پانی میں زندہ اُبال ڈالا اور اُس دستے کے سردار کا سر تن سے جدا کرکے اپنے گھوڑے کی دم کے ساتھ اس وقت تک باندھے رکھا جب تک گوشت گل سڑنہیں گیا۔ جموخہ اور چنگیز خان کی لڑائیوں کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا آخر کار چنگیز خان نے جموخہ کو شکست دی اور اپنی پرانی دوستی اور جموخہ کی خواہش پر کہ اس کو اس طرح مارا جائے کہ اُس کا خون جسم سے بہنے نہ پائے اس خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے چنگیز خان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جموخہ کی کمر کی ہڈی توڑ دی جائے سپاہیوں نے ایسا ہی کیا۔
جس وقت جموخہ کو دفن کیا گیا تو چنگیز خان نے اچھے وقتوں کی یاد ایک سنہر ی کمر بند جو اس کو جموخہ نے تحفہ میں دیاتھا لاش کی کمر کے ساتھ باندھ کر دفن کیا۔ برسوں کی یہ لڑائیاں جن کے بارے مورخین کا اندازہ ہے کہ دس سے پندرہ سال تک جاری رہی، بالآخر چنگیز خان نے جموخا سمیت اپنے تمام دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔1206ء میں دریائے آنان کے کنارے پھر”قرلتائی“منعقد ہوا، اس مجلس میں تموجن نے اپنے لیے ”چنگیز خان“ کا لقب منتخب کیا اور تمام منگول قبائل کو متحد ہو کر دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ دیا اورمجلس کے شرکاء کی رضامندی کے بعد وہ پوری منگول قوم اور سلطنت کا حکمران بن گیا۔
فوجی ڈھانچے کی تنظیم نو کا آغاز
چنگیز خان نے قبائلیوں کے اختلافات اور رنجشیں ختم اور اُن کی طاقت کم کرنے کے لیے فوج کو مختلف یونٹوں میں بانٹ دیا اور ہر یونٹ میں مختلف قبائل کے آدمیوں کوتعینات کیا، پھر یونٹوں کے الگ الگ کمانڈر مقرر کئے تاکہ قبائل ایک دوسرے کے ساتھ متحد اور وفادار رہیں۔”تومان“ نامی ڈویژنز بنائے،ہر ڈویژن کے کمانڈر پر لازم تھا کہ وہ احکامات کی وصولی اور اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے سال میں ایک مرتبہ لازمی چنگیز خان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (جو کہ ”یاسا“قوانین میں سے ایک تھا)فوج کو دل، میمنہ اور میسرہ میں تقسیم کیا، کمانڈر فوج کے دل میں کھڑے ہوتے تھے۔ چنگیز خان نے فوج کو نئے سرے سے تشکیل دے کر دشمنوں پر مکمل طور پر فوقیت حاصل کرلی تھی۔ افواج میں ترقی دیے جانے کے نظام کو متعارف کرایا۔ فوجی ساز و سامان اورخیموں کی تیاری کے ذمہ دار افسران تھے، جنہیں ”جورچی“کہا جاتا تھا، جورچی لشکر میں خوراک و دیگر سامان کی تقسیم کے بھی ذمہ دار تھے۔ چنگیز خان نے اپنی فوج کے سپاہیوں کو غریب اور محتاج رکھا مقصد صرف یہ تھا کہ فوجیوں کو ہر جنگ میں فتح کے لیے مجبور کیا جاسکے۔
جنگی حکمت عملی
جنگی حکمت عملی میں چنگیز خان کا کوئی ثانی نہیں تھا، وہ بہت سوچ و بچار کے بعد دشمن کے خلاف ہر مرتبہ ایک نئی حکمت عملی ترتیب دیتا، اپنی مہمات میں پچھلے منصوبوں کو شاذ و نادر ہی دہرایا کرتا،یہ ہی وجہ تھی کہ دشمنوں کے لیے اُس کے منصوبوں کو سمجھنا انتہائی دشوار ہوتا۔جنگ کے دوران وہ اپنی پیادہ
فوج کو آگے رکھتا اور خطرے کے وقت پیچھے ہٹنے کا حکم دیتا تاکہ پیادہ فوج کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے لیکن پھر اچانک تازہ دم گھڑ سوار فوج دشمن پر حملہ آور ہو جاتی اس موقع پر بھی وہ ہر مرتبہ مختلف حکمت عملی سے کام لیتا اکثر گھڑ سواروں کے چند دستے دشمن کو اپنے ساتھ الجھا لیتے مگر پھر اچانک منگول یونٹس کے بڑے دستے دشمن پر حملہ آوار ہوتے اور اُن کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے۔ چنگیز خان دشمن کے خلا ف لڑتے ہوئے جہاں جنگی چالوں کے پر عمل کرتا وہیں جانوروں کے شکار میں استعمال ہونے والی تکنیکی حکمت عملیوں کو بھی بروئے کار لاتا۔ جیسے جیسے سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی منگول تاجر، فوجیں اور ایلچی مسلسل سفر میں رہتے۔ چنگیز خان نے اپنی سلطنت میں سڑکوں پر خاص توجہ دی اور سڑکوں کے ارد گرد”یام“ نامی گھر بنوائے تاکہ مسافروں کے رہنے اور فوجی ساز و سامان رکھنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ یام کی حفاظت اور اُن کی دیکھ بھال کے لیے الگ سے ایک محکمہ بنایا جن کی ذمہ داری ان گھر وں کی مرمت کا کام دیکھنا ہوتا تاکہ بوقت ضرورت کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یاسا قوانین
چنگیز خان نے جہاں فوجی دھانچے کی تشکیل نوکی وہیں پر معاشرتی قوانین پر بھی خاص توجہ دی اور اپنا آئین مرتب کیا جسے”یاسا قوانین“ کہا جاتا ہے۔ یاسا قوانین بعد میں منگولوں کے لیے ایک روحانی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اس آئین کے مطابق چوری اور زنا انتہائی قابل نفرت جرائم قرار دیئے گئے ان کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دی جاتی۔والدین کی نافرمانی، خواتین پر تشدد، بیویوں کی اپنے شوہروں سے نافرمانی قابل گرفت جرائم تھے۔ اگرچہ چنگیز خان بذات خود ایک متشدد انسان تھا مگر یاسا قوانین کے مطابق منگول کا منگول پر تشدد اور لڑائی جھگڑے کی سخت ممانعت تھی۔یاسا آئین میں جاسوسی، ہم جنس پرستی اور دھوکے باز جادوگروں کے بارے کوئی ذکر موجود نہیں تھا مگر چنگیز خان ایسے جرائم ثابت ہوجانے پر مجرموں کو موت کی سزادیتا تھا۔ یاسا قوانین کے مطابق جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے کوئی بھی ملزم مجرم نہیں کہلایا جاسکتا تھا۔
چین پر حملہ
1209ء میں چنگیز خان نے چین کے قبلہ”تنگوتوں“پر حملہ کیا۔ تنگوتوں نے سخت مقابلے کے بعد چنگیز خان کے آگے ہتھیار ڈال دیے، شکست کے بعد بادشاہ نے اطاعت قبول کی اور اپنی بیٹی کی شادی چنگیز خان سے کردی۔ اسی سال چنگیز شمالی چین کو فتح کرنا چاہتا تھا۔ چین کی طرف بڑھنے سے پہلے اس نے اپنے ایک کمانڈر کو 2000 فوجیوں کے ساتھ وہاں بھیجا اور جب اسے یقین دلایا گیا کہ وہاں کے قبائل اطاعت قبول کرلیں گے تو وہ خود شمالی چین چلا گیا۔شمالی چین کے دارالحکومت ”چینگدو“کے قریب دو سال کی سخت جنگ کے بعد چنگیز خان نے شمالی چین کے بادشاہ ”التون خان“ کو بالآخر زیر کر لیا اور اس کی بیٹی کو اپنی بیوی بنا لیا۔شمالی چین کے شہروں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں پانچ سال لگے۔ لیکن وہ شمالی چین کو مکمل طور پر فتح کیے بغیر منگولیا واپس چلا گیا۔ شمالی چین کی فتح چنگیز خان کی موت کے بعد اوغدائی خان نے 1234ء میں حاصل کی۔
خوارزم پر حملہ
محمد جلال الدین کا وزیر خزانہ بہاالدین کا مورخ بیٹا عطاء ملک جوینی 1258ء میں بغداد کے محاصرے کے وقت ہلاکو خان کے ساتھ تھا جس کو بعد میں دریائے دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے کا گورنر بھی مقرر کیا گیا۔ جوینی نے منگول تاریخ لکھنے کا آغاز کیا مگر 1260ء کے بعد کے حالات جوینی کی تاریخ میں نہیں ملتے مطلب اس نے اپنی موت سے بیس سال قبل تاریخ لکھنا بند کردی تھی،وجہ کیا رہی کسی کو علم نہیں۔جوینی اپنی لکھی تاریخ میں خوارزم پر حملے کے بارے لکھتے ہیں کہ”چنگیز خان کا مقصد خوارزم پر حملہ کرنا ہر گز نہیں تھا“۔چنگیز نے خوارزم کے خوارزم کی جانب مسلمان تاجروں کا ایک قافلہ بھیجا اور اُن کے ہاتھ سلطان علاؤ الدین خوارزم کو ایک مراسلہ بھی ارسال کیا۔ مراسملہ کا متن کچھ اس طرح تھا کہ ”میں طلوع آفتاب کا ”خان“ہوں اور آپ غروب ہوتے سورج کی زمین کے”سلطان“آئیے دوستی اور امن کا ایک معاہدہ کرتے ہیں“۔ پندہویں صدی کے مشہور تاریخ دان”رشید الدین ہمدانی“ اپنی کتاب ”جامع التوریخ“ میں بھی یہ بات لکھتے ہیں کہ ”چنگیز خان سلطنت خوارزم کے ساتھ تجارتی تعلقات بنانا چاہتے تھے جس کی غرض سے انہوں نے مسلمان تاجروں کے ایک قافلے کو خوارزم بھیجا تھا“ اس قافلے کی سرپرستی بذات خود چنگیز خان کر رہے تھے۔ مراسلہ جب ”اترار“ کے گورنر کے پاس پہنچا تو اُس نے اس تجارتی مشن یا امن کے معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور سلطان علاؤالدین کے رضامندی سے تمام 450تاجروں کو قتل کردیا۔کئی ماہ گزرنے کے بعد جب چنگیز خان کو اس ظلم کا علم ہوا تو اُس نے خوارزم پر حملہ کردیا۔ایرانی مورخ تاجروں کے قتل کو خوارزم پر حملے کا بہانہ کہتے ہیں۔
جلال الدین خوارزم کے لیے خراج عقیدت
چنگیز خان کا خوارزم پر حملہ انتہائی بھیانک اور سفاکیت سے لبریز تھا، نیشا پور جو کبھی سائنس،علم اور اختراعات کا گہوارہ تھاحملے کے وقت شہر کی گلیاں خون کی ندیوں میں تبدیل ہوگئیں، مردوں، عورتوں، بزرگوں اور بچوں کے کٹے سروں سے مینار بنائے گئے، انسان تو انسان کتوں اور بلیوں کو بھی مار دیا گیا تھا۔سلطان علاؤالدین شاہ خوارزم چنگیز خان کے اس حملے کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور ”ابسکون“ نامی جزیرے کی جانب بھاگ گیا اور موت تک وہیں رہا جب کہ اس کا بیٹا جلاالدین شاہ خوارزم نے چنگیز خان کے خلاف مسلمانوں کو اکھٹا کیا اور اس بھیانک طوفان کا مقابلے کرنے کا عزم کیا۔ جلال الدین خوارزم کی بہادری پر چنگیز خان کے تاریخی الفاظ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں،اس نے اپنے سپاہیوں اور بیٹوں کے سامنے جلال الدین شاہ خوارزم کی بہادری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ایک باپ ایسے بیٹے کا مستحق ہے“۔
چنگیز خان کی موت
چنگیز خان کی موت کے بارے تاریخ میں مختلف موقف پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک کے مطابق 1226-1227 کی سردیوں میں چنگیز خان شکار کے دوران گھوڑے سے گر کرزخمی ہوا اور مسلسل صحت گرنے کی وجہ سے مر گیا۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ منگولیا واپس آتے ہوئے ایک مہم کے دوران اسے تیر لگا زہر پھیلنے سے وہ راستے ہی میں مر گیا۔جب کہ کچھ مورخین کے مطابق ہے کہ وہ ملیریا کی وجہ سے مرا، تاریخ میں اس کے موت کی ایک وجہ اور بیان کی جاتی ہے کہ چین کے بادشاہ کی بیوی کے ساتھ ہم بستری کے دوران اس عورت نے خنجر کے ساتھ اس کے مخصوص جسمانی حصہ کو زخمی کردیا تھا جس سے وہ بیمار ہو کر مرا۔ ان میں سے کون سی بات سچ ہے اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر سب سے پہلے والا موقف زیادہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ موت کی وجہ کچھ بھی رہی ہو چنگیز خان نے 1227ء میں موت پائی۔ جس وقت وہ بیمار تھا تو اس کی بیماری اور بعدمیں موت کو بھی راز میں رکھا گیا۔ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے دفنائے جانے کی جگہ کی نشان دہی کردی تھی اس کی وصیت کے مطابق اسے وہیں دفن کیا گیا، چنگیز خان کی موت اور قبر کو دنیا سے چھپایا گیا جن غلاموں نے چنگیز خان کو دفنانے کا کام سرانجام دیا بعد میں اُن سب کو قتل کردیا گیا۔
چنگیز خان کے بیٹے
چنگیز خان نے مہمات کے دوران کئی شادیان کیں مگر سب سے پہلی بیوی بورتے کی اولاد سلطنت کی وارث بنی۔ بورتے میں سے اس کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔
جوجی خان
چنگیز خان کا سب سے بڑاتھا۔اسے باپ کی طرف سے سائبیریا، قپچاق، روس، ازبکستان اور قاغستان کا علاقہ دیا گیا تھا۔ چنگیر خان نے جلال الدین خوارزم کے خلاف مہم میں چغتائی اور جوجی کو بھیجا تھا جلال الدین تو ان کے ہاتھ نہ لگے مگرمنگول شہزادوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر بستی اور ہر شہر کو نیست و نابود کر ڈالا تھا۔ جوجی نے مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھائے تھے۔ 1227ء میں زہر دیئے جانے سے ہلاک ہوا۔
چغتائی خان
چنگیز خان کی زندگی میں ہی چغتائی خان کے پاس ماوراالنہر، قازقستان، کاشغر اور ترکستان کے علاقے تھے۔ باپ کی وصیت کے مطابق اپنے وزیراعظم ”قراچارنوئیاں“سے بیٹی”توکل خانم“ کی شادی کردی اور حکومت کے انتظامات اس کے حوالے کرکے اوغدائی کے ساتھ سکونت اختیار کی اور امور سلطنت میں اس کا ساتھ دیتا رہا۔1241ء میں شکار کے دواران تیر لگنے سے ہلاک ہوا۔
اوغدائی خان
چنگیزخان نے اوغدائی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس نے 9 سال تک حکومت کی، اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ بھائیوں کے مقابلے میں بہت بہتر سلوک روا رکھا۔ مساجد کو دوبارہ سے تعمیر کرنے کی اجازت دی، اجڑے شہروں کو نئے سرے سے آباد کیا، انصاف پسند اور عام رعایا کے ساتھ اچھے سلوک پر شہرت پائی۔ مسلمانوں کے ساتھ باہمی شادیوں کو رواج دیا، اوغدائی نے امور
سلطنت بہتر انداز میں چلائے،اس کی موت کے بعد قبائل پھر ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑوں اور سرکشی میں مبتلا ہوگئے، اوغدائی کی بیوی نے پانچ سال حکومت کی مگر پھر سلطنت کے امیروں نے اس کے بیٹے قیق کو حکمران بنایا اس کے دربار میں چینی کافر وں کا اثر و رسوخ تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے یہ دور بہت سخت ترین ثابت ہوا۔ پندرہ ماہ حکومت کی اور ایک رات اچانک پیٹ درد میں مبتلا ہوااور اسی بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیااس کی موت کے بعد مسلمانوں کو اُس کے ظلم کے دور سے نجاب ملی۔
تولوئی خان
چنگیز خان کا سب سے چھوٹا اور پسندیدہ بیٹا تھا،تولوئی خان کی اولاد مغل کہلائی جو تبت میں آباد ہوئے اور بدھ مذہب کے پیروکارتھے اور”دلائی لامہ“ مشہور ہوئے، ہلاکو خان اور قبلائی خان تولوئی کے بیٹے تھے۔ انہیں کی اولادوں نے ایران اور عراق پر حکمرانی کی بعدازاں ان کی اولاد نے اسلام قبول کیا،تولوئی کا پوتا محمود خان غازان منگولوں میں سب سے پہلا مسلمان بادشاہ تھا۔
سلطنت
منگول سلطنت، جسے عظیم منگول سلطنت کہا جاتا ہے، جس نے 13ویں اور 14ویں صدی کے دوران 162 سال آدھی دنیا پر حکومت کی۔سلطنت کا آغاز مشرقی ایشیا سے ہوا اور آخر کار شمال میں مشرقی یورپ سے بحیرہ جاپان تک،تقریباً پوراسائبیریا،جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مغربی ایشیا اور برصغیر پاک و ہند تک پھیل گئی۔منگول سلطنت کو تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت اورکل رقبہ کے لحاظ سے دوسری بڑی سلطنت کہا جاتا ہے۔ منگول سلطنت 24,000,000 مربع کلومیٹر یا زمین کے کل رقبے کے تقریباً 25 فیصد پر محیط تھی جو 14ویں صدی کے وسط تک 100 ملین سے زیادہ لوگوں (دنیا کی آبادی کا 31 فیصد) کی آبادی پرمشتمل تھی۔اس عظیم سلطنت کو بعد میں چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن سے بعد میں چغتائی خانات، گولڈن ہارڈ، ایلخانیٹ اور یوان خاندان کی سلطنتیں نمودار ہوئیں اور پھر رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوکر 1368ء میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔