Site icon MASHRIQ URDU

پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ ایک عہد ساز شخصیت

پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ

پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ ایک عہد ساز شخصیت

پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ
پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ
1888ء گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے سید عبدالعزیز کا تعلق خاندان عباسیہ سے ہے اور آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی 44 ویں اولاد ( پشت ) سے ھیں۔ 1903ء میں پندرہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ 1907ء میں گریجویشن، 1909ء میں ایم اے انگلش، 1911ء میں ایم اے فارسی اور 1913ء میں ایم اے عربی کیا، 1914ء میں محبوب عالم اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ میں بطور ہیڈ ماسٹر اپنی تعلیمی خدمات کا آغاز کیا۔
بعد ازاں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں اور پھر 1917ء میں خالصہ کالج امرتسر میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ انہی دنوں صوفی غلام مصطفی تبسم نے 1916ء میں چرچ مشن ہائی سکول امرتسر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1919ء میں خالصہ کالج امرتسر سے تھرڈ ایئر کا امتحان پاس کیا، دوران تعلیم انہوں نے پروفیسر صوفی عبدالعزیز سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

1923ء میں خالصہ کالج گجرانوالہ میں بطور پروفیسر تعیناتی ہوئی اور پھر ایم اے او کالج لاہور میں عربی فارسی کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔  جن دنوں پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ ایم اے او کالج لاہور میں اپنی تعلیمی خدمات انجام دے رہے تھے انہی دنوں مولانا ظفر علی خان نے ان کے ساتھ رابطہ کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ 1903ء میں جب مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین احمد خان نے لاہور سے زمیندار اخبار جاری کیا تو یہ اخبار ہفت روزہ کی حیثیت سے تھا۔ بہت سی مشکلات کے باعث انہوں نے اپنا اخبار لاہور سے وزیر آباد کے ساتھ اپنے گاؤں کرم آباد منتقل کر دیا۔
1909ء میں جب آپ رحلت فرما گئے تو آپ کے فرزند اکبر مولانا ظفر علی خان نے اپنے والد ماجد کی آخری خواہش کے مطابق اس کی ادارت سنبھالی اور پھر کچھ مدت کے بعد 1911ء میں مولانا ظفر علی خان اسے دوبارہ لاہور لے آئے۔ اب یہ اخبار ہفتے میں دو بار شائع ہونے لگا۔ جنگ بلقان ( 13-1912ء ) میں یہ اخبار شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا اور نہ صرف روزنامہ ہوا بلکہ دن میں دو بار چھپنے لگا۔ جدوجہد آزادی اور اتحاد بین المسلمین کی کھلم کھلا حمایت کرنے پر مولانا ظفر علی خان اور ان کے شرکاء کار انگریز حکومت کے زیر عتاب آ گئے۔ قید و بند، ضمانتوں کی ضبطی اور پریس کی کرکی ایک رسم بن گئی۔
38-1937ء مولانا ظفر علی خان انگریز کی قید سے رہا ہو کر آئے تو انہوں نے پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ سے رابطہ کیا۔ پروفیسر صوفی عبدالعزیز ان تمام معاملات اور حالات و واقعات سے پہلے ہی پوری طرح آگاہ تھے۔ مولانا نے پروفیسر صاحب سے اخبار کی سرپرستی کرنے کی استدعا کی اس لیے کہ مولانا کے بہت سے ساتھی گرفتار ہو چکے تھے چنانچہ پروفیسر صوفی عبدالعزیز تھے نہایت خوش دلی کے ساتھ اس کی حامی بھر لی اور یہ اخبار ایک بار پھر باقاعدگی کے ساتھ شائع ہونے لگا۔ پروفیسر صوفی عبدالعزیز نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ شب و روز ایک کر دیا اور اس کی اشاعت کا کام جاری رکھا۔

پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ

بھارت کا دورہ واہگہ باڈر وفد کی قیادت کرتے ہوئے
1965ء میں مولانا ظفر علی خان کی وفات کے بعد 1970ء تک زمیندار اخبار پروفیسر صوفی عبدالعزیز اخبار کی سرپرستی میں شائع ھوتا رھا یہاں تک کہ 1970ء میں پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ شدید علیل ہو گئے اور دسمبر 1971 میں خلق حقیقی سے جا ملے اور پھر اس کے ساتھ ہی زمیندار اخبار کی اشاعت بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت قابل ذکر ہے کہ پروفیسر سید صوفی عبدالعزیزؒ کا شمار قائد اعظم محمد علی جناح کے نہایت قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ قرارداد مقاصد ( قرارداد لاہور ) کے لیے جب کمیٹی تشکیل دی گئی تو وہ اس کمیٹی کے رکن تھے۔

( یاد رھے کہ نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی صوفی عبدالعزیزؒ عباسی کے فرسٹ کزن تھے ) پروفیسر صوفی سید عبدالعزیز بلاشبہ ایک بڑی تاریخی شخصیت کے حامل تھے۔ ایک وہ وقت تھا جب صحافت کی دنیا میں نواۓ وقت کی بہت اہمیت تھی۔

نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی
23 مارچ 1940 کو جب لاہور سے نواز وقت کی اشاعت ہوئی تب نوائے وقت 15 روزہ کی حیثیت سے شائع ھوا۔ 1942ء میں ہفت روزہ ہوا لیکن بانیء پاکستان محمد علی جناح کی خواہش تھی کہ یہ اخبار روزنامہ کی حیثیت سے شائع کیا جائے چنانچہ انہوں نے جناب حمید نظامی سے فرمایا کہ اسے روزنامہ کے طور پر شائع کریں جس پر حمید نظامی نے عرض کیا کہ میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اسے روزنامہ میں تبدیل کر سکوں جس پر بانیء پاکستان نے فرمایا کہ آپ اس کی فکر نہ کریں اس کا انتظام ہو جائے گا۔

تب حمید نظامی نے اپنے استاد محترم پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ اس سلسلہ میں میری مدد فرمائیں۔ صوفی صاحب ایک طرف زمیندار اخبار دیکھ رہے تھے تو دوسری طرف انہوں نے اپنے شاگرد خاص حمید نظامی کی ذمہ داری بھی قبول کر لی، اس طرح ہفت روزہ نوائے وقت 22، جولائی 1940ء کو روزنامہ کے طور پر شائع ہوا اس معاملہ میں قائد اعظم کے خصوصی حکم پر شیخ حامد محمود کا بھی انہیں بھرپور تعاون حاصل رہا۔

امرتسر: جلیانوالہ باغ میں سکھ رہنما جیمل سنکھ کے ہمراہ
اگست/ستمبر 1962ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے جب گلبرگ تھری لاہور میں گونگے بہرے بچوں کے لیے درس گاہ کی بنیاد رکھی تو پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ اس موقع پر بھی مادر ملت کے ہمراہ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر پروفیسر صاحب کو یہاں درس و تدریس کے لیے بھی حکم فرمایا گیا اس لیے کہ صوفی صاحب اس تعلیمی میدان میں بھی مکمل درسترس اور مہارت رکھتے تھے چنانچہ مادر ملت کے حکم اور ان کی خواہش پر وہ بہت عرصہ تک گونگے بہرے بچوں کو بھی اس مخصوص تعلیم سے راستہ کرتے رہے۔

پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ کے خاص شاگردوں میں صوفی غلام مصطفی تبسم، قدرت اللہ شہاب، مولانا عبدالستار خان نیازی، زیڈ اے سلہری، حمید نظامی، مجید نظامی، میر خلیل الرحمن، پروفیسر محمد اختر (پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ) میاں عبدالرشید ( نواۓ وقت میں نور بصیرت لکھنے والے ) اور ایسی لا تعداد اہم شخصیات شامل ھیں۔

راجہ رانا سانگا کی تلوار گولڈن ٹیمپل کے ڈپٹی چیف لکھبیر سنگھ کا دیا تحفہ
 پروفیسر صوفی عبدالعزیزؒ کے پردادا خواجہ محمد عمر عباسی اپنے وقت کے بلند پایہ ولی گزرے ھیں۔
یہ وھی بزرگ ہستی ھیں جب علامہ اقبال چار سال کے تھے تو اقبالؒ کے والد گرامی شیخ نور محمد کی استدعا پر وہ سیالکوٹ تشریف لے گئے جہاں باقاعدہ ایک تقریب منعقد ھوئی۔ یہ تقریب اقبالؒ کو بسم اللہ پڑھانے کی تھی چنانچہ خواجہ محمد عمر قادری عباسیؒ نے اقبالؒ کو اپنی گود میں لیا اور اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں لگا کر بسم اللہ پڑھائی۔
اس واقعہ کو یونیورسٹی آف پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی نے اپنی کتاب " زوال سے اقبال تک ” میں صفحہ 220 سے 225 تک تفصیل کے ساتھ درج کیا ھے۔
تاریخ لکھتی ھے کہ ان دو بلند پایہ بزرگ ہستیوں ( خواجہ محمد عمر عباسی اور اقبالؒ کے والد گرامی ) کی روحانی و فکری توجہ کے باعث اقبالؒ "حکیم الامت” بنے۔

چنگیز خان! کامیاب بادشاہ جس نے آدھی دنیا فتح کی!

Exit mobile version