ارشاد کھوکھر:
گزشتہ تقریباً سوا ماہ کے دوران ملک بھر میں آٹے کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ، گندم مافیا کی جانب سے بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کرنے کا شاخسانہ ثابت ہوا ہے۔
ملک بھر میں رواں سیزن کے دوران ملکی ضرورت کے مقابلے میں وافر مقدار میں گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن ذخیرہ اندوز مافیا کو دی گئی کھلی چھوٹ کے باعث آٹا مہنگا ہونے کی صورت میں ملکی صارفین پر آٹے کی مد میں 64 ارب روپے سے 77 ارب روپے تک ماہانہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال سے اب محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا بھی فائدہ اٹھانے کے لئے پرتول رہی ہے۔
تاہم سندھ خصوصاً کراچی، کے پی کے اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب میں آٹے کے نرخ کم ہیں۔ اس صورت حال میں سرکاری گندم کے نرخ مقرر کرنے کے حوالے سے حکومت سندھ دہرے عذاب میں مبتلا ہے۔ کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کی جانب سے گندم پر زیادہ سبسڈی نہ دینے کی شرائط عائد ہیں۔ دوسری جانب سندھ کے محکمہ خوراک میں لاکھوں ٹن گندم کی خورد برد بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انسانی غذا کو پورا کرنے کے لئے عالمی سطح پر طے شدہ فارمولے کے مطابق بچے، جوان، بوڑھے سے لے کر فی شخص کی سالانہ گندم کی خوراک 124 کلو گرام کے حساب سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ مذکورہ فارمولے کو اگر دیکھا جائے تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پاکستان کی 25 کروڑ آبادی کے لئے سالانہ گندم کی ضرورت 31 ملین ٹن یعنی 3 کروڑ 10 لاکھ ٹن ہے۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق سال 2024-25ء کے رواں سیزن کے دوران ملک بھر میں گندم کی پیداوار 2 کروڑ 90 لاکھ ٹن ہوئی۔ جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ سالانہ ضرورت کے مقابلے میں گندم کا ذخیرہ 20 لاکھ ٹن کم ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
کیونکہ گزشتہ سیزن کے اختتام پر حکومت پنجاب کے پاس 20 سے 22 لاکھ ٹن اور سندھ کے محکمہ خوراک اپنے ریکارڈ میں یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان کے پاس 13 لاکھ 65 ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ بچ گیا تھا، اس طرح پاسکو کے پاس بھی لاکھوں ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملکی ضرورت کے مقابلے میں گندم کا ذخیرہ وافر مقدار میں موجود ہے۔
لیکن ہوا کچھ یوں ہے کہ گزشتہ نگران حکومت کے دوران تقریباً 36 لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ جس پر بڑا شور شرابہ ہوا تھا کہ ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے کے باعث اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں میں نمایاں کمی ہونے کی وجہ سے آبادگاروں کا کھربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔
یہ بات بالکل درست ہے ، تاہم اس کے برعکس گندم کے نرخوں میں کمی کے باعث آٹے کے نرخوں میں نمایاں کمی ہونے کی وجہ سے صارفین کو آٹے کے نرخ کم ہونے کے باعث ریلیف ملا اور مذکورہ مدت میں فلور ملز مالکان کو سرکاری گندم لینے کی ضرورت نہیں پڑ رہی تھی، جس کے نتیجے میں صرف کوٹہ کے تحت ملنے والی سرکاری گندم پر گزارہ کرنے والی اور سستے دام پر سرکاری گندم لے کر مہنگے دام پر اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے والی غیر فعال فلور ملوں کو تالے لگ گئے تھے۔
جولائی 2025ء کے اختتام تک فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ 71 روپے پچاس پیسے اور فائن آٹے کے ایکس مل نرخ 78 روپے تھے۔ جس کے باعث عوام کو ریٹیل میں فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹا 80 روپے سے بھی کم میں مل رہا تھا۔ لیکن اس کے بعد بڑے بیوپاریوں پر مشتمل گندم ذخیرہ اندوز مافیا نے کام دکھانا شروع کردیا کیونکہ رواں سیزن کے دوران حکومت پنجاب اور حکومت سندھ نے بھی گندم نہیں خریدی تھی، جو مثبت بات تھی کیونکہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ امدادی قیمت کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخ کم تھے۔
حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدنے کے باعث گندم پر دی جانے والی کھربوں روپے کی سبسڈی کی بچت ہوئی۔ اس طرح رواں سیزن کے دوران جو بھی گندم کی پیداوار ہوئی وہ ذخیرہ اندوز مافیا نے خرید لی۔ رپورٹ کے مطابق بیوپاریوں نے فی سو کلو گرام گندم کی بوری اوسطاً ساڑھے پانچ ہزار روپے میں خرید کرکے ذخیرہ کرلی تھی۔ جولائی تک بیوپاری فی سو کلو گرام گندم کی بوری 6 ہزار روپے سے ساڑھے 6 ہزار روپے تک فلور ملوں کو فروخت کر رہے تھے۔
لیکن اس کے بعد پنجاب میں شدید بارشوں اور ملک بھر میں سیلاب کی جو صورت حال پیدا ہوئی اس سے گندم کی ترسیل جزوی طور پر متاثر ہوئی۔ لیکن اس کا بہانہ بناکر ذخیرہ اندوز مافیا نے فی سو کلو گرام گندم کی بوری کے نرخ 9 ہزار 700 روپے تک پہنچا دیئے۔
جس کے باعث اگست سے آٹے کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں 3 ستمبر کو فلور ملز مالکان نے گندم مہنگی ملنے کے باعث فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹا 106 روپے اور فی کلو گرام فائن آٹے کے ایکس مل نرخ 114 روپے تک بڑھادیئے۔ اس دوران حکومت پنجاب تھوڑی حرکت میں آئی اور انہوں نے فی سو کلو گرام سرکاری گندم کے نرخ ساڑھے 7 ہزار روپے مقرر کرکے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ جس کے باعث پنجاب میں آٹے کے نرخوں میں کچھ کمی آئی ہے لیکن پھر بھی آٹے کے نرخ وہ نہیں ہیں جو جولائی کے مہینے تک تھے۔
حکومت کے حرکت میں آنے کے بعد اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں میں تھوڑی بہت کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز کراچی کی اوپن مارکیٹ میں فی سو کلو گرام گندم کی بوری کے سودے 9 ہزار 100 روپے میں ہوئے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے فلور ملز مالکان نے فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے ، فائن آٹے اور میدے کے نرخوں میں 8 روپے کی کمی ضرور کی ہے۔ لیکن پھر بھی فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے کے نرخ 98 روپے ہونے کے باعث صارفین کو فی کلو گرام آٹا 110 روپے سے کم نہیں مل رہا۔
اس صورتحال میں ریٹیلرز مافیا بھی اپنی کام دکھاتی ہے۔ جنہیں ایکس مل نرخوں کے مقابلے میں فی کلو گرام آٹے پر 2 سے 3 روپے منافع رکھنا چاہئے۔ وہ بھی 10 سے 12 روپے کا منافع کما رہے ہیں۔ جولائی کے مقابلے میں فی کلو گرام آٹے کے نرخوں میں اوسطاً 25 سے 30 روپے اضافہ ہونے کے باعث ملکی صارفین پر صرف آٹے کی مد میں ماہانہ 64 ارب روپے سے 77 ارب روپے کا بوجھ بڑھا ہے کیونکہ سالانہ 3 کروڑ 10 لاکھ کے حساب سے ملک بھر میں ماہانہ آٹے کی طلب 25 لاکھ 83 ہزار ٹن یعنی دو کروڑ 58 لاکھ 30 ہزار بوری گندم ہے۔
گندم کے حوالے سے حکومت سندھ دوہرے عذاب میں اس لئے ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ چاول اور دیگر اجناس کی طرح گندم پر سبسڈی نہ دی جائے اور اسے اوپن مارکیٹ کے نرخوں پر چھوڑا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ اپنے ریکارڈ میں جو 13 لاکھ 65 ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ ظاہر کر رہی ہے ان میں سے عملی طور پر 50 فیصد گندم کا ذخیرہ خورد برد کی نذر ہونے کے باعث عملی طور پر موجود ہی نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک نے جو گندم خریدی ہے، انہیں فی بوری گندم 14 ہزار روپے سے بھی زیادہ پڑی ہے۔
اس صورت حال میں حکومت سندھ اگر اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں سرکاری گندم کے نرخ زیادہ مقرر کرے گی تو ان کی گندم کوئی نہیں اٹھائے گا۔
دوسری پریشانی یہ ہے کہ اگر گندم پر زیادہ سبسڈی دی گئی تو اس کے آڑے آئی ایم ایف کی شرائط بھی آسکتی ہیں اور سرکاری خزانے پر بھی سبسڈی کی مد میں زیادہ بوجھ بڑے گا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک نے اس سلسلے میں فی سو کلوگرام گندم کی بوری کے نرخ 8 ہزار روپے 11 ہزار روپے تک مقرر کرنے کے حوالے سے مختلف تجاویز ارسال کی ہیں جس کا فیصلہ سندھ کابینہ کرے گی۔
اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی : اقوام متحدہ تحقیقاتی کمیشن