
موہنجودڑو ایٹمی حملے میں تباہ ہوا
برطانیہ کے سائنسدان لارڈ ڈیوڈ ولیم ڈیون پورٹ کی بارہ سالہ تحقیقات میں انکشاف، مہا بھارت کے مطابق ایک چمکدار راکٹ ”اگنیا“ دنیا کے سب سے تہذیب یافتہ شہر پر داغا گیا۔ اس ”اگنیا کی گرمائش 1500 ڈگری تھی، جس کے بعد ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں، جن سے تباہ شدہ شہر کی دیواریں باقی رہ گئی۔ موہنجو دڑو سے حاصل کردہ سیمپل سے بھی جوہری تباہی کے شواہد ملتے ہیں۔ اٹلی کے شہر میلان میں شائع ہونے والی لارڈ کی موہنجو دڑو پر کتاب "Atomic Destruction in 2000 BC” نے ماضی کے نظریات کو مشکوک بنا دیا۔
اس دھما کے کا مرکزی گڑھا 50 گز قطر کا تھا۔ جس کے اندر تمام چیزیں حرارت سے Crystalized ہو گئی تھیں یا موم کی طرح پکھل گئی تھیں۔ اس مرکز سے 60 گز کی دوری پر واقع دیواروں کی اینٹیں ایک جانب سے پکھلی نظر آتی ہیں۔ یہ جوہری دھما کے یا تابکاری کے اثرات یا علامت ہے۔ چار ہزار سال قدیم دور کا یہ خوفناک واقعہ ہندوؤں کی پوتر کتاب مہا بھارت میں اس طرح درج ہے۔
”سفید گرم ترین دھواں
جو روشن ترین سورج سے بھی
ہزاروں گنا زیادہ چمکدار تھا
اس نے شہر کو راکھ کر دیا
پانی کھولنے لگا
ہزاروں انسان اور جانور جل کر راکھ ہو گئے
لاشے انتہا درجے کی حرارت سے
اس طرح ٹوٹ پھوٹ گئے کہ
ان کی شناخت نہ رہی کہ یہ انسانی باقیات ہیں؟
یہ انتہائی بھیانک نظارہ تھا
ایسا خوفناک ہتھیار
پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا
جو ایسی تباہی لایا ہو!“۔
لارڈ ڈیون پورٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے موہنجو دڑو پر ریسرچ شروع کرنے سے پہلے سنسکرت سیکھی اور ہندومت کی پوتر کتابیں پڑھیں تو ان پر یہ انکشاف ہوا کہ موہن جو دڑو آج سے چار ہزار سال پہلے کسی ایسے حملے کی نتیجے میں تباہ ہوا جس کی تمام تر علاماتیں جوہری یا ایٹمی بم سے ملتی ہیں۔اس کے بعد لارڈ نے مسلسل بارہ برس تک ان آثار قدیمہ پر ریسرچ کی۔یہاں متاثرہ اینٹوں، چیزوں کو برطانیہ و اٹلی اور دیگر ممالک میں لے جاکر ان پر سائنسی ٹیسٹ کرائے۔
ڈیون پورٹ کتاب میں لکھتے ہیں
”میرا نظریہ دنیا کے سائنسدانوں کے لئے عجیب ہو سکتا ہے لیکن اگر ان عظیم آثار سے متعلق انہی سائنسی خطوط پر ریسرچ کی جائے تو نتائج وہی آئیں گے جو میں کھوج کر سامنے لا چکا ہوں۔ میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ یہاں (موہنجو دڑو میں) خلائی مخلوق آتی رہتی تھی جو اس جگہ سے معدنیات اور دیگر اشیاء کے نمونے لے جا کر ریسرچ کرتی تھی۔ مجھے جو ہندومت کی قدیم دستاویزات سے معلوم ہوا ہے، اس کے مطابق موہنجو دڑو پر جب یہ حملہ ہونا تھا، اس سے سات دن پہلے اس خلائی مخلوق نے یہاں کے باشندوں کو شہر خالی کرنے کے لئے کہہ دیا تھا۔ تقریباً 30 ہزار شہری اس وارننگ کے تحت یہاں سے چلے گئے تھے مگر کچھ لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، جن میں سے 44 کے ڈھانچے کھنڈرات میں اس طرح پڑے ملے ہیں کہ جیسے جیسے جو بھی واقعہ ہوا ہے، وہ اچانک ہی ہوا اور انہیں بچنے یا پناہ لینے کا موقع نہیں مل سکا۔ بعض نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آخری وقت گزارا اور کچھ لوگوں نے اوندھے ہو کر موت سے بچنا چاہا تھا۔ ان کے ڈھانچے اسی حالت میں ملے تھے۔ ایک فیملی یعنی میاں بیوی اور بچہ حملے کے وقت شہر کی ایک گلی سے گزر رہے تھے، وہ اسی گلی کے فرش پر ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اوندھے گرے ہوئے پائے گئے۔ ان دستاویزات میں کئی جگہ پر اسرار ”ومانوں“ کی پروازوں کا ذکر ہے، جو بغیر سہارے کے فضا میں چلتے دیکھے جاتے تھے۔ کئی جگہوں پر ایسے”و مان“ (یہ لفظ ہندی میں آج بھی ہوائی جہاز کے لئے مستعمل ہے) دیکھے جانے کی بات آتی ہے، جو اپنے”منہ“سے”اگنی“ نیچے پھینکتے اور لوگوں کو ڈراتے رہے تھے!“۔
دوسرے اہم سائنسدانوں کی محتاط تائید
لارڈ ڈیوڈ ولیم ڈیون پورٹ کی یہ تحقیقات جہاں سائنسی حلقوں میں سنسنی اور کھلبلی مچانے کا باعث بنی، وہاں اس میدان کے دیگر سائنسدانوں نے بھی ان کی ریسرچ میں گہری دلچسپی لے کر ان شواہد کا اپنے طور پر جائزہ لیا ہے۔ برطانیہ کے ایک اہم ماہر ولیم اسٹرم کہتے ہیں: ”میں نے موہنجو دڑو کی اینٹوں کو دیکھا ہے اور یہ بھی پرکھا ہے کہ اینٹیں اس طرح پگھلی ہیں کہ کسی عام آگ یا تیز درجہ حرارت پر یوں پگھلاؤ نظر نہیں آتا۔ یہ کوئی غیر معمولی درجہ حرارت ہوگا، جس سے یہ حشر ہوا“۔
روم و اٹلی کے خلائی سائنسدان انتونیو کا سٹیلانی کہتے ہیں
”میں اتنا تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موہنجو دڑو کی تباہی کوئی قدرتی واقعہ نہیں تھی۔ کیا زمانہء قدیم میں بھی خلائی مخلوق زمین پر حملے کرتی رہی ہے؟“۔
مہا بھارت میں ایک جانب لڑائی کے روایتی طریقے، روایتی ہتھیار، تیر، نیزہ، ہاتھی اور قلعوں کا ذکر ہے تو دوسری جانب ہندومت کی اس کتاب میں ہوائی جہازوں (ومان)، جنگی طیاروں، میزائلوں اور فضا سے خلائی جہازوں کے اترنے اور ان کی جانب سے زمینی آبادیوں پر ” آگ کے گولے“ برسانے کا ذکر ہے، جس سے شہر تباہ ہو رہے ہیں۔ لارڈ ڈیون پورٹ کہتے ہیں کہ اگر ان alliens کے حملوں اور کاموں پر غور کیا جائے تو لگتا ہے کہ کچھ ٹیکنالوجی کے حساب سے وہ خلائی مخلوق ہم سے کئی نوری سال آگے تھی۔ ان کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لئے ہمارے اکیسویں صدی کے ذہن ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ کارگر ہو سکیں۔ سائنس کہتی ہے کہ انسانی ذہن ماضی کی نسلوں کی کامیابیوں، ناکامیوں کے ریکارڈ سے اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کر کے ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ ہمارے ماضی کے لوگوں نے خلائی مخلوق جیسی ترقی نہیں کی تھی، اس لئے اس خلائی ٹیکنا لوجی کو ہم ابھی سمجھ نہیں سکتے لیکن بزرگ اولیاء اور نابغہ لوگ چونکہ ذہنی طور پر بلند اور عام لوگوں سے بہت آگے تک سوچ سکتے ہیں یا مظاہرہ کا نظارہ کر لیتے ہیں، اس لئے وہ اس طرح کی باتیں کرتے اور آنے والے لوگوں کے لئے ریکارڈ چھوڑ جاتے ہیں۔
خلائی مخلوق کائنات کے کئی مقامات پر موجود ہو سکتی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ
دنیا کے انتہائی جینئس سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ”مجھے یہ پختہ یقین ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کے کئی گوشوں، نظام ہائے شمسی، سیاروں میں وہ مخلوق موجود ہوگی، جسے ہم اس دنیا سے باہر کی اور خلائی مخلوق قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس خلائی مخلوق کی ذہنی ارتقا ہم سے لاکھوں نوری سال آگے ہو اور وہ ہماری زمین پر آتی اور یہاں پر تجربے کرتی رہی ہو۔ اگر کبھی کسی عظیم ترین تجربے کے لئے اس مخلوق نے ہماری زمین کو منتخب کر لیا تو اس کا نتیجہ وہی نکل سکتا ہے جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے پر اصل امریکی شہریوں کے حق میں نکلا تھا“ یعنی انہیں ریڈ انڈین قرار دے کر، وحشی کہہ کر ان کی نسل کشی کی گئی اور انہیں ختم کر دیا گیا۔ آج اصل امریکن بس کہیں کہیں ”تبرک” کے طور پر زندہ رکھے گئے ہیں۔
مایا تہذیب والوں کا خلائی مخلوق سے رابطہ تھا:میکسیکن وزیر کا دعویٰ
دنیا کی قدیم تہذیب مایا میکسیکو کے علاقوں میں ماضی میں بہت ترقی پر تھی۔ میکسیکو کے ایک صوبے Campeche کے وزیر لوئس آگستو گارشیا رو سادو کہتے ہیں کہ ہمیں حکومتی سطح پر ایسی دستاویزی شہادتیں دریافت ہوئی ہیں، جن کے مطابق مایا تہذیب کے لوگوں کے خلائی مخلوق کے ساتھ گہرے رابطے تھے۔ ہمارے جنگلات میں کئی جگہ ایسے لانچنگ پیڈ بھی ملتے ہیں، جن کی قدامت ماہرین آثار قدیمہ تین ہزار سال سے زائد بتاتے ہیں۔ وہ دستاویزات اب محفوظ کر لی گئی ہیں۔
نیشنل ریسرچ کونسل موہنجو دڑو کی غیر فطری تباہی کی تصدیق کرتی ہے
اٹلی کا سائنسی ادارہ نیشنل ریسرچ کونسل جہاں موہنجو دڑو سے لائے گئے نمونے(اینٹوں کے ٹکڑے، شیشہ نما ٹکڑے وغیرہ) ٹیسٹ کئے گئے، وہ اپنے ٹیسٹ نتائج میں اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ موہنجو دڑو کسی قدرتی آفت یا فطری تباہی سے ختم نہیں ہوا، یہ کسی غیر فطری مظہر سے اچانک تباہ ہوا تھا، جس کی تابکاری کی باقیات آثار کی اینٹوں اور دوسری باقیات پر واضح ملتی ہیں۔ یہ تباہی انتہائی غیر معمولی درجہ حرارت کے باعث وقوع پذیر ہوئی ہوگی۔ انسانی ڈھانچوں کی حالت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی اچا نک نازل ہونے والی تباہی سے بچنے بچانے کے لئے ایک دوسرے کو سہارا یا تسلی دیتے ہوئے زمین پر لیٹ گئے ہیں یا گر گئے ہیں۔ ڈھانچوں کی ہڈیوں پر Calcination کی اعلامتیں بھی پائی گئی ہیں اور یہ بھی انتہا درجے کی حرارت کے باعث ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسے مٹی کے پکے ہوئے برتن، پتھر، ہڈیاں اور دیگر اشیاء حرارت سے شیشہ یا شیشہ نما بن گئی ہیں۔ یعنی Vitrify ہو گئی ہیں۔
لارڈ ڈیون پورٹ کے دعویے کی جانچ کے لیے اٹلی کے سائنسدانوں کا موہنجوڈرو کا دورہ
موہن جو دڑو کی ایٹمی حملے میں تباہی کا دعویٰ اتنا بڑا ہے کہ مختلف سائنسدان اس کی تصدیق یا تردید کرنے کے لئے ذاتی مشاہدوں اور تجربوں کو ترجیح دینے کے لئے ان آثار کا دورہ کرنے پر تیار ہوئے۔ اٹلی کے سینٹر یوفو لوجیکو نیزنل (خلائی تحقیق کا کوئی ادارہ) کے سربراہ ہنری بکارانی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم موہنجو دڑو آئی مگر ٹیم نے لارڈ ڈیون پورٹ کی ریسرچ کے حوالے سے مقامی حکام پاکستانی سرکار کو ہوا بھی لگنے نہ دی، صرف آثار کے دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ مگر ٹیم نے موہنجو دڑو پر مختلف ٹیسٹ لئے، اپنے جدید آلات سے تجربات کئے اور پورے پروسیس کو ریکارڈ بھی کیا۔ انہوں نے بعد میں لارڈ ڈیون پورٹ کی ریسرچ کو درست قرار تو دیا مگر یہ بھی کہا کہ ان کو تابکاری اثرات کی تصدیق کے لئے مزید ریسرچ کی ضرورت پڑے گی۔ اس ٹیم کے سربراہ ہنری نے ریسرچ پر تحفظات کے باوجود بعد میں اپریل 2013ء میں ایک ریسرچ مقالہ لکھا، جس کا عنوان ”موہنجوڈر و پر 4 ہزار سال قبل پلازما ہتھیاروں کا حملہ“ تھا۔
قدیم تہذیبوں پر جوہری حملے محض سائنس فیکشن نہیں
ایک اور ماہر اے گور بووسکی اپنی کتاب Riddles of Ancient History میں لکھتے ہیں کہ موہنجو دڑو، مایا اور دیگر قدیم تہذیبوں کی تباہی کے پیچھے اگر کسی ماہر کو قدیم زمانے کی ایٹمی قوتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے تو اس کو محض دیوانے کا خواب یا سائنس فکشن سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ موہنجودڑو کے کھنڈرات سے ملنے والے ڈھانچوں کی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان ہڈیوں پر تابکاری اثرات عام قسم کی تابکار یوں سے پچاس گنا زیادہ ہیں۔ اس طرح یہ صورت حال تابکاری کے لحاظ سے ناگا سا کی اور ہیروشیما کی ایٹم بم لگنے کے بعد والی صورت حال جیسی لگتی ہے۔ لارڈ ڈیون پورٹ کی تھیوری کو مختلف ملکوں کے سائنسدانوں نے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے اور انہوں نے الگ الگ طور پر اس ریسرچ کی تصدیق یا تردید کے لیے اپنے طور پر کام بھی کیا ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر ماہرین لارڈ ڈیون پورٹ کی تحقیقات سے اختلاف کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی ان کی تائید پر مجبور ہوئے کیونکہ ان کو جو شواہد ملے اور مختلف نمونوں کے ٹیسٹ نتائج جو ملے ہیں، وہ انہیں ایماندارانہ رائے دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے معروف سائنسدان ولیم اسٹرم نے بھی لارڈ ڈیون پورٹ کے انکشاف کی محتاط الفاظ میں توثیق کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ موہنجو دڑو کی پگھلی ہوئی اینٹیں شیشے میں تبدیل ہو چکی۔ ٹھیکریاں اور دیگر اشیاء کی جانچ پڑتال سے ایسا ہی لگتا ہے کہ یہاں جو بھی تباہی مچی ہے، وہ محض عام آگ، قدرتی آفت یا فطری تبدیلی کے باعث نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے انتہائی عظیم حرارت کا باعث بننے والا کوئی Blast کار فرما رہا ہے۔
اگر ان تمام سائنسدانوں کی باتوں کو درست مانتے ہوئے یہ یقین کر لیا جائے کہ موہنجو دڑو محدود پیمانے کے ایٹمی دھماکے سے تباہ ہوا تھا، مایا تہذیب کے مقامات پر تین ہزار سال پرانے وہ لانچنگ پیڈ اب بھی موجود ہیں، جہاں خلائی مخلوق اپنے نہایت جدید طیاروں سے اترا کرتی تھی تو وہ معلوم دنیا کی تاریخ بالکل تبدیل ہو جائے گی بلکے الٹ پلٹ ہوجائے گی۔ یہ تصور انتہائی خوفناک ہے کہ ہم سے ہزروں گنا جدید ٹیکنا لوجی کی حامل کوئی اور مخلوق اس کا ئنات میں ہزاروں پرس سے موجود ہے۔ یہ مخلوق نہ صرف موجود ہے بلکہ اس نے ہماری دنیا کا راستہ بھی دیکھ رکھا ہے اور یہاں کے کچھ خاص مقامات کو وہ مخلوق آج سے تین چار ہزار سال پہلے ہی سے اپنی تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہے!۔ اطالوی ما ہر ای ونسینٹی جس نے ناگا سا کی اور ہیروشیما پر بھی ایٹم بم کے حملے کے بعد ریسرچ کی تھی، وہ موہن جو دڑو کی تباہی سے متعلق کہتے ہیں کہ: ” ان کھنڈرات میں نہ صرف جوہری دھماکے کی علامتیں اور شواہد نظر آتے ہیں بلکہ آثار کے نیچے کئی کلو میٹر اس جو ہری لہر کی علامتیں بھی نظر آتی ہیں جو ایٹمی دھماکے کے بعد متاثرہ علاقے کی زمین میں دیکھی جاتی ہے۔ ان کھنڈرات کے چار سو میٹر ایریا میں پھیلی ہوئی ٹھیکریاں، سنگ ریزے اور اینٹوں کے ٹکڑے ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں پر انتہا درجے کی حرارت پیدا ہوئی اور پھر ایک دم ٹھنڈک چھا گئی۔ یہ علامت جوہری حملے کی ہوتی ہے۔ ان ماہرین نے موہنجو دڑو سے متاثرہ پتھر اٹھائے اور انہیں روم یو نیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف میزالوجی میں تحقیقات کے لئے بھیجا گیا۔ یہی پتھر کے ٹکڑے اٹلی کے نیشنل ریسرچ کونسل کے ماہرین کے حوالے بھی کئے گئے۔ دونوں اداروں کے ماہرین کی ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پتھر پہلے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے تھے جو جوہری توانائی کے غیر معمولی اخراج کے نتیجے میں پگھل کر سخت پتھر بن گئے اور کالے پڑ گئے۔ یہ توانائی کم سے کم 1400 سے 1600 ڈگریز تک ہو سکتی تھی۔
چند ماہ قبل اسی پلیٹ فارم پر یعنی سنڈے میگرین میں ایک مضمون بعنوان ”موہنجوڈرو ایٹمی حملے میں تباہ“ ہوا نظروں سے گزرا۔ یہ مضمون میرے لیے انتہائی باعث حیرت تھا نہ صرف میرے لیے بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو اپنے اندر کچھ تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ اس مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج سے چار ہزار سال قبل بھی دنیا نہ صرف اسی طرح جدید اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی بلکہ کوئی انجانی وخلائی مخلوق بھی ایٹم بم و حیاتیاتی میزائلوں سے لیس تھی، جس نے اس جدید شہر پر حملہ کیا اور اسے تباہ وبرباد کر دیا۔ اس احمقانہ سوچ کا حامل ایک برطانوی سائنس دان”لارڈ ڈیوڈ ولیم ڈیون“ ہے جو اپنے لمبے نام کی طرح لمبی لمبی ہانکنے کا ماہر معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ آج سے چند ماہ قبل ایک امریکی سائنس دان نے اسی قسم کی سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک لمبا چوڑا بیان داغ دیا تھا کہ چاند پر کسی نے قدم نہیں رکھا اور یہ سب افسانوی باتیں ہیں، ان سائنس دانوں نے دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے یہیں پر زمین کے کسی دور دراز علاقے میں یہ سارا کھیل رچایا وغیرہ وغیرہ،در اصل یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں کہیں کوئی پہچان نہیں اور پھر شہرت کے بھو کے یہ لوگ ایسی ریسرچ اور اس قسم کے بیانات دے کرسستی شہرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ یا طریقہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ بہر حال لارڈ ڈیوڈ اپنی ریسرچ میں لکھتا ہے کہ”اس ریسرچ سے پہلے میں نے سنسکرت سیکھی اور ہندوؤں کی پوتر (مقدس) کتابوں کا مطالعہ کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار ہزار سال پہلے کوئی آسمانی یا خلائی مخلوق ایسی موجود تھی جو جدید ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی۔ مزید کہا کہ موہنجودڑو پر ہونے والے ایٹمی حملے کا مرکزی گھڑھا 50 گز قطر کا تھا اور اس مرکز سے 60 گز کی دوری پر واقع دیواروں کی اینٹیں ایک جانب سے پگھلی نظر آتی ہیں،
یہ جوہری دھما کے یا تابکاری کے اثرات کی علامت ہے۔ فرماتے ہیں کہ چار ہزار سال قدیم دور کا خوفناک واقعہ ہندووں کی مقدس کتاب ”مہا بھارت“ میں اس طر ح درج ہے کہ ”سفید گرم ترین دھواں، جو روشن ترین سورج سے بھی ہزاروں گنا زیادہ جمکدار تھا، اس نے شہر کو راکھ کر دیا،پانی کھولنے لگا، ہزاروں انسان اور جانور جل کر راکھ ہوگئے۔ لاشے انتہا درجے کی حرارت سے اس طرح ٹوٹ پھوٹ گئے کہ ان کی شناخت نہ رہی کہ یہ انسانی باقیات ہیں،یہ ایک انتہائی خوفناک نظارہ تھا۔ ایسا خوفناک ہتھیار پہلے کبھی دیکھا نہ بنا جو ایسی تباہی لایا ہو“ پھر کہتے ہیں کہ مونجودڑو پر جب حملہ ہونا تھا تو اس سے سات دن پہلے اس خلائی مخلوق نے یہاں کے باشندوں کو شہر خالی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا، تقریباً 30 ہزار شہری اس وارننگ کے تحت یہاں سے چلے گئے مگر کچھ لوگوں نے اس پر عمل نہ کیا جن میں 44 کے ڈھانچے کھنڈرات میں اس طرح پڑے ملے کہ انہیں بچنے بچانے یا پناہ لینے کا موقع نہ مل سکا اور ایک دوسرے کو سہارا یا تسلی دیتے ہوئے زمین پر لیٹ گئے یا گر گئے۔ (یہ سب انہیں مہا بھارت کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا جو انہیں اپنی بارہ سالہ ریسرچ میں کہیں دکھائی نہ دیا) ایک اور برطانوی ماہر ولیم اسٹرم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ تصور انتہائی خوفناک ہے کہ ہم سے ہزاروں گنا جدید ٹیکنالوجی کی حامل کوئی اور مخلوق اس کائنات میں ہزاروں برس سے موجود ہے اور یہ مخلوق نہ صرف موجود ہے بلکہ اس نے ہماری دنیا کا راستہ بھی دیکھ لیا ہے، چنانچہ ان تمام ٹیسٹوں اور تجربات کے بعد یہ صورتحال تابکاری کے لحاظ سے ناگاساکی اور ہیرو شیما کی ایٹم بم لگنے والی صورتحال جیسی لگتی ہے۔۔۔۔!
لارڈ ڈیوڈ ولیم نے سنسکرت سیکھی ہی نہیں!!!
اب مسٹر لارڈ ڈیوڈ ولیم کی پہلی بات کا جواب تو یہ ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ریسرچ سے پہلے انہوں نے سنسکرت سیکھی۔ چنانچہ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آج کی دنیا کا کہیں وجود تک نہیں، نہ اس کے بولنے والے اور نہ اس کے پڑھنے والے، اس لیے کہ سنسکرت آج سے دو ہزار یا 1800 سال پہلے متروک یعنی ختم ہو چکی تھی۔ یہ زبان پانچ سو سال قبل مسیح (حضرت عزیر علیہ السلام) کے دور تک بولی جاتی رہی۔ 530 قبل مسیح میں یہ تقریباً نا پید ہو گئی اور اس کی جگہ سمانی ”کلدانی” زبان عام رواج پاگئی کیونکہ یہ زبان قدیم بابل (بخت نصر شہنشاہ بابل) والوں کی زبان تھی، عبرانی اور کلدانی زبانیں مشترکہ طور پر بولی جاتی رہیں، حضرت عزیر علیہ السلام کی زبان بھی عبرانی تھی مگر جب آپ بابل پہنچے تو بخت نصر نے اپنے عالموں کے ذریعے انہیں کلدانی زبان بھی سکھائی اور پھر سنسکرت کے بولنے والے 2000 قبل مسیح سے 200 عیسوی کے درمیانی وقفے میں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے لہذا جو زبان آج سے دو ہزار سال پہلے ہی ختم ہو چکی ہو، اس کے سکھانے والے آج کہاں سے ملیں گے؟ اور بالفرض اگر کہیں پر موجود ہوں گے بھی تو اس پر عبور نہ رکھتے ہوں گے جیسا کہ بالمیکی وغیرہ جو پاکستان سندھ کے بعض علاقوں میں مقیم ہیں، لہذا یہ کہنا کہ پہلے میں نے سنسکرت سیکھی، صریحان غلط اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ موہنجو دڑو کی کھدائی کے دوران جو کی مٹی کی بنی تختیاں ملیں، ان پر بھی زبان تحریر ہے، جو نا قابل شناخت ممکن ہے وہ سنسکرت یا عبرانی زبان ہو، اگر ان موصوف نے سنسکرت سیکھی ہے تو پھر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ان تختیوں پر کیا لکھا ہے؟۔
اینٹیں پگھلتی ہی نہیں!
پھر فرماتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کی صورت میں پڑنے والے گڑھے کا قطر 50 گز ہے اور اس کے 60 گز کی دوری پر شہر کے ایک جانب کی دیواریں پگھل گئی ہیں۔ کیا آپ نے بھی کبھی اینٹوں کو پگھلتے دیکھا؟ شدید ترین حرارت یا دھما کے سے اینٹیں جل کر سیاہ یا ٹکڑے ٹکڑے تو ہو سکتی ہیں مگر اینٹوں کا پگھلنا پہلی مرتبہ سننے میں آیا۔ میں 1980 ء سے لے کر جنوری 2014 ء تک متعدد بار موہنجودڑو گیا اور وہاں کے دور دراز کے ویرانوں تک ہو کر آیا مگر مجھے کہیں پر بھی 50 گز قطر کا کوئی گڑھا دکھائی نہیں دیا البتہ شہر سے کچھ دُوری پر پچاس ساٹھ فٹ قطر کا ایک نشان ضرور دکھائی دیا، جس میں شہروں کی گندگی اور غلاظت پھینکی جاتی تھی۔ یہ گڑھا بھی اب تقریباً بند ہو چکا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں ضرور آئی اس گڑھے میں پھینکے جانے والے بول و براز سے بننے والی گیسزکے باعث گڑھے کے قطر کی سطح سیاہ ہوچکی ہے۔
اگر ایٹمی دھماکہ ہوا تو دیواریں کیسے بچ گئیں؟
دوسری اہم ترین بات کہ اگر اس شہر پر ایٹمی دھما کہ ہوا اور پھر وہ ایٹمی دھما کہ بقول ان نام نہاد سائنس دانوں کے جو ہماری موجودہ دنیا سے بھی کہیں زیادہ جدید تھا تو پھر پورے کا پورا شہر بچ کیسے گیا؟ اس قدر شدید اور خوفناک دھما کہ ہونے کے باوجود شہر کی تمام دیواریں بالکل صحیح سلامت رہیں اور ان میں سے کسی ایک دیوار میں دراڑ تک نہ آئی، ان کی رنگت تک تبدیل نہ ہوئی اور پھر ڈبل منزلہ وہ کنوئیں جن کی اونچائی سولہ سے اٹھارہ فٹ کے لگ بھگ ہے، سب اپنی بنیادوں پر ویسے کے ویسے ہی کھڑے رہے۔ شہر کی دو اڑھائی فٹ سے لے کر بارہ سے پندرہ فٹ اونچائی تک چکنی مٹی اور گارے سے چنی گئی پکی اینٹوں کی دیواروں میں لگی ہزاروں اینٹوں کے کونے تک خراب نہ ہوئے اور جس شکل میں وہ آج سے چار ہزار سال پہلے تیار کی گئیں، اسی شکل میں آج بھی موجود و محفوظ ہیں۔ حالانکہ ان کے بچاؤ کی کوئی تدابیر بھی نہیں کی گئیں، جنہیں یہ سائنسدان ایٹمی دھماکے کے باعث پگھلا ہوا کہتے ہیں، در حقیقت وہ مسلسل بارشوں کے باعث پانی کی رگڑ کھاتے کھاتے گھس گئیں اور موسمی اثرات کی وجہ سے ان کی وہ ہیئت باقی نہ رہی اس لیے کہ ان کے اُوپو اب کسی قسم کی کوئی چھت یا سائبان وغیرہ نہیں جو تیز
بارشوں کے پانی سے انہیں بچا سکے۔ اپنی ریسرچ میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ایٹمی دھما کے کے نتیجے میں برتن اور مٹی کے بنائے گئے زیورات و دیگر اشیاء پختہ مٹی اور شیشہ و دھات وغیرہ میں تبدیل ہو گئے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنی ذہانت کے باعث اس قدر جدید قسم کا شہر ایک مکمل ترتیب و تزئین کے ساتھ آباد کر سکتے ہیں، کیا وہ مٹی کے برتنوں وزیورات وغیرہ کو پکا بھی نہیں سکتے؟ کیا وہ پتھروں کو تراش کر اور دھاتوں کو پگھلا کر دیگر اشیاء کو وجود میں نہیں لا سکتے؟ یہ تب بھی سب کچھ ممکن تھا۔ ہزاروں سال پہلے اگر عاد و ثمود اور فرعون و نمرود کے ادوار دیکھے جائیں تو اس وقت بھی جدید شہر اور محل آباد تھے اور ان میں سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کے بنے ہوئے خوبصورت برتن وزیورات وغیرہ بھی موجود تھے اور یہ ٹیکنالوجی آج سے ہزاروں سال پہلے ایجاد ہو چکی تھی، یہ الگ بات ہے کہ یہ سب کچھ پہلے ہاتھوں سے تیار ہوتا اور ان میں وہ صفائی نہ تھی جو آج کے دور کی مشینوں کے ذریعے ہے۔ یہ سائنسدان اس ایٹمی حملے کو ناگا ساکی اور ہیروشیما جیسے ایٹمی دھماکے سے تشبیہ دیتے ہیں تو کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ دونوں شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اس کی حرارت سے انسان بخارات بن کر اُڑ گئے۔
اسی طرح بم کے پھٹنے کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں، جن میں گیس افیکٹ، شاک ویوز، سپلنٹر افیکٹ اور ہیٹ افیکٹ وغیرہ۔بم کے پھٹنے سے جو انتشار پیدا ہوتا ہے اور اس کے اندر سے جو شعاعیں باہر نکلتی ہیں، وہ اسی تیزی کے ساتھ پھر واپس بھی لوٹتی ہیں جس سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہوتا ہے۔
بم جن لوگوں کے قریب ترین پھٹتا ہے وہ گیس افیکٹ کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، اس لیے کہ وہ گیس ان کے جسموں کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے جس کے باعث جسموں کے اعضا بکھر جاتے ہیں، اسی طرح ہیٹ افیکٹ کے باعث شدید ترین حرارت پھیلتی ہے، جس سے آس پاس کی چیزوں کو آگ لگ جاتی ہے لہذا مختلف بموں کی مختلف اقسام ہیں جو مختلف قسم کی تباہی کا باعث بنتی ہیں چناچہ یہ کہنا کہ موہنجودڑو پر نہایت خوفناک ایٹمی حملہ ہوا، نہایت فضول، نا معقول، بے معنی اور من گھڑت کہانی کے سوا اور کچھ نہیں۔
”مہا بھارت“ کا تذکرہ
محترم سائنسدان نے ہندوؤں کی پوتر کتاب ”مہا بھارت“کا تذکرہ فرمایا ہے، جس میں انہوں نے اس خوفناک حادثے یا ایٹمی حملے کے علاوہ جدید خلائی مخلوق کا ذکر پڑھا اور پھر اپنی بارہ سالہ ریسرچ کی تان اسی پر آکر توڑ دی۔ مہا بھارت ہے کیا؟ در حقیقت سنسکرت زبان کی سب سے قدیم کتاب ”وید“ ہیں یعنی چار۔ ان چاروں ویدوں کے بعد جو ادب وجود میں آیا، وہ بھی بیشتر مذہبی نوعیت کا ہے۔ ان میں دو رزمیہ نظمیں ”مہا بھارت اور رامائن“ ہیں۔ یہ بھی سنسکرت ہی میں لکھی گئیں۔ ہندی زبان بھی 2000 قبل مسیح وجود میں آئی۔ یہ دراصل ہند یورپی خاندان کے آریائی لوگوں کی زبان ہے۔ اس خاندان کی دو شاخیں معروف ہوئیں، ایک ہند یورپی اور دوسرا ایرانین۔ ہند یورپی آرین 2000 قبل مسیح ہند میں داخل ہوئے جسے بعد ازاں ہندوستان پکارا جانے لگا۔ اسی دوران ہی جب سنسکرت اپنے اختتام کے قریب تھی اور اس کے عالم کہیں کہیں پائے جاتے تھے تو ان کی کتب ”مہا بھارت اور رامائن“ کا ترجمہ ہندی زبان میں ہونے لگا جو تقریبا 200 قبل مسیح سے 200 عیسوی تک پایا انجام کو پہنچا۔ جب یہ زبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو اس سے بہت سی نئی زبانوں نے جنم لیا، جن میں پالی، ہندی، بنگالی، ملواری، پنجابی، گجراتی، مرہٹی کے علاوہ دیگر کئی زبانیں شامل ہیں۔ ہندوستان میں بولنے والی تقریباً تمام زبانیں اسی سنسکرت زبان ہی سے نکلی ہیں۔بعد ازاں سنسکرت میں بھی تبدیلیاں آتی گئیں اور آنے والے پرانوں و پروہتوں نے اس میں مزید مذہبی قصے کہانیوں کے رنگ بھر دیے۔ رامائن یعنی ”رام کی کہانی“ یہ وہ طویل ترین رزمیہ (یعنی جنگی) نظم ہے جو ہندوؤں میں بے حد مقبول ہے اور تقریباً ہر ہندو گھر میں پڑھی جاتی ہے، اس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں کیا جا چکا ہے۔(لہذا قیاس ہے بلکہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مسٹر لارڈ ڈیوڈ نے انگریزی میں ترجمہ کی ہوئی اس کتاب ”مہابھارت“ کا مطالعہ فرمایا ہے، جس کا انہوں نے ذکر بھی کیا، جو ان کی بارہ سالہ تحقیق کا منبع و سر چشمہ ہے)۔ اس کتاب ”مہابھارت“ میں عجیب و غریب قسم کی داستانیں رقم ہیں۔ خاندانی لڑائیاں، محبت پیار کے افسانے، اُڑن کھٹولے، مافوق الفطرت بھگوان اور ان کے کرشمے، غیبی قوتوں اور خلائی مخلوق سے مقابلے وغیرہ، یہ ایک طویل ترین نظم ہے۔”مہا بھارت“ جو تقریباً 200 قبل مسیح سے 200 عیسوی کے درمیان تصنیف ہوئی، نوے ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور یہ زمانہ قدیم کے حکیم دیاس سے منسوب ہے۔ اس میں دو خاندانوں کی منافقت اور عظیم خانہ جنگی کا بیان ہے، بعد میں پروہتوں نے اس میں مذہبی، اخلاقی و ملک داری کے متعلق طویل اضافے کیے۔ (جیسا کہ توریت کے عالموں نے توریت کے ساتھ کیا)۔ ہندو نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ دین، یہ ایک رسومات کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس میں ہر طرح کی اور کسی بھی وقت میں تبدیلی یا تبدیلیوں کا آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بہر کیف! ایک مقام پر عظیم سائنسدان نے اپنی ریسرچ میں یہ بھی فرمایا کہ یہ تصور انتہائی خوفناک ہے کہ ہم سے ہزاروں گنا جدید ٹیکنالوجی کی حامل کوئی اور مخلوق اس کائنات میں ہزاروں برس سے موجود ہے اور یہ مخلوق نہ صرف موجود ہے بلکہ اس نے ہماری دنیا کا راستہ بھی دیکھ رکھا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ چار ہزار سال گزر جانے کے باوجود وہ مخلوق آج تک ایک بار بھی اس جدید سائنسی دنیا پر حملہ آور نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں پر اترتی دکھائی دی جبکہ اس خلائی مخلوق کو اس جدید سائنسی زمینی مخلوق سے شدید خطرات لاحق ہونے چاہئیں تھے۔
964 قبل مسیح میں جب جب حضرت سلیمان تخت نشین ہوئے اور آپ کو پوری دنیا کی حاکمیت عطا ہوئی تو پوری دنیا کی مخلوق آپ کے تابع فرمادی گئی، جن بھی آپ کی حاکمیت میں آگئے اور ان کی سرکشی کو لگام دے دی گئی۔ توریت کے باپ سلاطین، باپ اول: 9-39 میں آپ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ آیا ہے جبکہ قرآن کریم میں سورۃ ص،سورۃ الانعام، سورۃ الانبیاء، سورۃ نمل، سورۃ البقرۃ میں تفصیلی ذکر فرمایا گیا) آپ کے دربار میں چار ہزار سے زائد جن اور پریاں ہر وقت حاضر رہتے۔
طاقتور جن آپ کا تخت اُٹھا کر نہایت برق رفتاری کے ساتھ آبادیوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جاتے چنانچہ یقین غالب ہے کہ ان پروہتوں وغیرہ نے اسی کو ومان یعنی جہاز کا نام دے دیا ہو اور جنوں کو خلائی مخلوق جو انتہائی طاقتور اور منہ سے آگ برسانے والی تھی، آج سے تقریبا 40 سال پہلے امریکیوں نے Jack the Jaint Killer) کے نام سے ایک فلم بھی بنائی، جس میں جنوں کو پرواز کرتے اور انہیں منہ سے آگ اگلتے دکھایا گیا۔ مختصر یہ کہ کاش مسٹر لارڈ ڈیوڈ ولیم نے مہا بھارت کے ساتھ قرآن کریم و احادیث مقدسہ کا مطالعہ بھی کیا ہوتا تو وہ کسی بہتر نتیجے پر پہنچ سکتے تھے اور ان کی اس تحقیق یا ریسرچ میں حقائق کے بہت سے رنگ بھی پائے جاتے۔
نوٹ: اس تحقیق پر مبنی تحریر سے قبل میرا موہنجودڑو پر ایک مضمون بعنوان ” مردوں کا ٹیلہ موہنجودڑو” اسی پلیٹ فارم پر شائع ہوچکا ہے، وہ ایک تصورات و تخیلات پر مبنی تحریر ہے جسے موہنجودڑو کی جدیدیت اور ٹیکنالوجی سے وابستگی کو مد نظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا جب کہ یہ ایک مکمل تحقیق اور شواہد کے ساتھ مرتب کردہ لارڈ ڈیوڈ ولیم ڈیون پورٹ کے آرٹیکل کا جواب ہے۔ قارئین کرام سے التماس ہے کہ ان دونوں مضامین کا آپس میں ملاپ یا موازنہ نہ فرمائیں۔ شکریہ