منٹو پارک! ایک عہد کا خاتمہ
لاہور ایک شہر نہیں بلکے عادت ہے، اس جملے پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ جس نے بھی کہا خوب کہا ہے، لاہور ایک عادت ہے۔ اس شہر کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مگر آج کے جدید دور میں لاہور کو عشق و محبت کا شہر بھی کہا جاتا ہے، یہاں کے باغات، تاریخی عمارتیں، اولیاء کرام کے مزارات، شاہرائیں اور بازار اپنے اندر ایک ایسی کشش رکھتے ہیں کہ جو ایک دفعہ اس شہر میں آباد ہوا وہ لاہور کا ہو کر رہ گیا۔ شہر کا محل وقوع ایسا ہے جس نے اس کو سرسبز و شاداب بنا رکھا ہے، لاہور کے پارک اور باغات اپنی جگہ خوبصورتی کا باعث ہیں مگر یہاں ایک ایسا میدان بھی ہوا کرتا تھا جس کی تاریخ اپنے اندر بھی ایک تاریخ رکھتی ہے، اس میدان کو اس لیے بھی اہمیت حاصل رہی ہے کہ اس کی ایک جانب قدیم لاہور شہر آباد تھا (جو آج بھی موجود ہے) تو دوسری جانب دریائے راوی اور باداموں کے باغات موجود تھے۔
یہاں باداموں کے درخت کثرت سے پائے جاتے تھے
برصغیر کے حکمران چاہے وہ ہندو دور تھا، مغلیہ یا تاج برطانیہ کا دور اس میدان کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس میدان کا نام بھی مختلف ادوار کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا۔ کبھی پریڈ گراونڈ کے نام سے پکارہ گیا کبھی منٹو پارک اور آج اس میدان کو گریٹر اقبال پارک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ منٹو پارک کا نام ذہن میں آتے ہی آپ کو تازگی، لش پش میدان، کھیلوں اور لاہور کی ثقافت کا خیال آتا ہے۔ مغلیہ دور کی یاد تازہ کرتا یہ میدان اندرون لاہور سے پرانے راوی تک باغات سے لدا پھدا ہوا کرتا تھا، جہاں باداموں کے درخت کثرت سے پائے جاتے تھے جن کی مناسبت سے اس کے گرد و نواح کو بادامی باغ کا نام دیا گیا۔ منٹو پارک کے آموں اور دوسرے پھلوں کے درختوں کے سائے تلے بیٹھنے والے بزرگ آج بھی موجود ہوں گے۔
1910 ء تک اس باغ کو پریڈ گراؤنڈ کے نام سے پکارہ جاتا رہا
پھلوں کے درختوں کے درمیان ایک کھلا اور سرسبز میدان ہوا کرتا تھا جس میں اُس وقت کے شہنشاہ اور حکمران اپنی افواج کی تقاریب منعقد کیا کرتے تھے، 1799ء میں سکھوں کے دور حکومت میں اہل لاہور اس کو پریڈ گراؤنڈ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ نام عوام میں 1910ء تک مقبول رہا پھر انگریز حکمرانوں نے اس کا نام بدل کر منٹو پارک رکھ دیا۔ سکھ دور میں پھلوں کے باغوں کی جانب خاص توجہ دی گئی اور باغات کو لاہور قلعہ کی دیواروں تک پھیلا دیا گیا تاکہ راجہ رنجیت سنگھ شیش محل میں بیٹھ کر باغات کا نظارہ کر سکے۔برطانوی دور حکومت میں یہ ایک خوبصورت ترین باغ ہوا کرتا تھا جس کی اہمیت شالا مار باغ سے کسی طور کم نہ تھی۔ جان لارنس کے مطابق 1910ء تک اس باغ کو پریڈ گراؤنڈ کے نام سے پکارہ جاتا رہا جب تک کہ اس کا نام منٹو پارک تبدیل نہ کر دیا گیا۔ آج بھی اندرون لاہور کے باسی اس کو پریڈ گراؤنڈ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
بادشاہی مسجد اور لاہور قلعہ کے اطراف میں دیکھیں تو سپیر پارٹس مارکیٹ نظر آئے گی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور قانون کے مطابق کسی بھی تاریخی یادگار کے 200 میٹر کے اندر کوئی بھی عوامی بلڈنگ یا تعمیراتی کام نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ بادشاہی مسجد اور لاہور قلعہ کے اطراف میں دیکھیں تو سپیر پارٹس مارکیٹ نظر آئے گی یہاں تک کہ قلعہ کی دیواروں کے ساتھ جڑی ہوئی ورکشاپس جہاں قلعہ کے حسن کو برباد کر رہی ہیں وہیں دیواروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ تاریخی پس منظر رکھنے والے منٹو پارک کیساتھ بھی ہوا۔ گراؤنڈ کے ساتھ بننے والی میٹرو بس اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں نے اُس کے حسن کو تباہ کر دیا ہے وہ مقام جو کبھی باغات اور تازہ ہوا کا مسکن ہوا کرتا تھا آج گرد و غبار اور دھوئیں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود لاہور کے باسی اس گراؤنڈ کے ساتھ بہت زیادہ مانوس ہیں۔ منٹو پارک نے پاکستان کو کھیلوں میں ایک پہچان دی ہے۔
وہ مقام جو کبھی باغات اور تازہ ہوا کا مسکن ہوا کرتا تھا آج گرد و غبار اور دھوئیں سے بھرا ہوا ہے
قیام پاکستان سے قبل کا اکھاڑہ، کرکٹ گراؤنڈ، سوئمنگ پول اور ہاکی گراؤنڈ اس کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ اس گراؤنڈ نے جہاں احمد شہزاد، توصیف عمر، وسیم اکرم اور تقلین مشتاق جیسے کرکٹرز دیئے وہیں ”مسلم ہیلتھ کلب” (اکھاڑہ) نے”صادق سائیکل والا“ جیسے پہلون بھی دیئے جو رستم ہند کا اعزاز اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس اکھاڑے سے ستر کی دھائی میں ”سردار پہلون“ مشہور ہوئے، یہ وہ پہلوان ہیں جن کے شاگرد اس اکھاڑے میں پہلوانی کے گُر سکھاتے رہے ہیں۔ اسی گراونڈ میں کبھی پہلوانی کے مقابلے بہت مشہور ہوا کرتے تھے، جہاں دنیا کے نامور پہلوانوں نے کشتیاں لڑیں اور پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی، گاما پہلوان سے لے کر جھارا پہلوان تک برصغیر کے تمام نامور پہلوانوں نے منٹو پارک کے اکھاڑے میں اپنی پہلوانی کے جوہر دکھائے۔
مارچ 1940ء کے جلسوں کے لیے بھی اسی میدان کا انتخاب کیا گیا، قیام پاکستان کے بعد اسی گراونڈ میں قرارداد پاکستان کی یاد گار ”مینار پاکستان“ تعمیر کیا گیا۔ منٹو پارک کبھی لاہور میں ادبی اور سیاسی محفلوں کے لیے بھی شہرت رکھتا تھا، علاقے کے بزرگ سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں کے شاموں میں دن بھر کی تھکاوٹ اتارنے یہاں آتے۔ اسی باغ میں پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے مشہور و معروف شاعر”حفیظ جالندھری“ کا مزار بھی موجود ہے۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہ باغ جو بدلتے زمانوں میں اپنی پہچان بدلتا رہا، حکومت پاکستان نے جدیدیت کے نام پر اس کے رنگ و روپ کو مکمل طور پر بدلنے کا منصوبہ بنا ڈالا نہ صرف اس کی پہچان کو بلکہ اس کی تاریخی حیثیت کو بھی بدل کر رکھ دیا گیا۔
حکومت نے اس میدان میں ہونے والی صحت افزاء سر گرمیوں کا خاتمہ کر دیا ہے
نئی تعمیر کے نام پر اس میں موجود تمام کھیلوں کے میدانوں سمیت تاریخی”مسلم کلب اکھاڑہ“ کو بھی ختم کر دیا گیا۔ جس وقت اس میدان کی تعمیر نو ہو رہی تھی تب میں نے منٹو پارک کی طرف رخ کیا تھا مگر تب وہاں منٹو پارک موجود نہ تھا اب وہاں پر ہر طرف بڑی بڑی مشینیں کام کر رہی تھیں،جس نے گراؤنڈ کو تہہ و بالا کر رکھا تھا۔ ٹوٹی دیواروں کی اینٹوں کے ڈھیر پر حفیظ جالندھری کے مزار کے عین سامنے دو بزرگ بیٹھے تھے، جب میں نے ان سے منٹو پارک پر بات کرنا چاہی تو انہوں نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور کہنے لگے کہ ”منٹو پارک! ہوا کرتا تھا اب نہیں ہے” ان میں ایک بزرگ نے کہا کہ ”یہاں ہماری محفل ہوا کرتی تھی، جہاں ہم بزرگ اپنے مسائل اور حالات پر بات کرتے تھے، اب میں یہاں اپنے دوست تلاش کر تا ہوں، معلوم نہیں وہ سب کے سب کہاں چلے گئے” اُس بزرگ کی بات میں ایک دکھ تھا، ایک شکوہ تھا، وہ بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ گئے تھے۔ سامنے پہلوانوں کا اکھاڑہ نظر آیا جو اب چند دنوں کا مہمان رہ گیا تھا، اکھاڑہ کی دیوار پر ایک بورڈ آویزاں تھا جس پر لکھا تھا ”قائم شدہ 1944“یعنی یہ اکھاڑہ بھی ایک تاریخی اہمیت کا حامل تھا،
کہنے لگے، ”منٹو پارک! ہوا کرتا تھا اب نہیں ہے”
مگر چند دن بعد یہاں کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں جب اندر گیا تو ہر طرف ایک ویرانی چھائی نظر آئی، وہاں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے اپنا تعارف نادر خان کے نام سے کرایا۔ وہ اس اکھاڑہ میں پہلوانی کرتا رہا تھا، اُس سے بات ہوئی تو اُس نے کہا کہ ”ہمارے ملک میں بے روزگاری نے جرائم پیشہ افراد میں اضافہ کر دیا ہے۔ منٹو پارک میں موجود کرکٹ کلب، اکھاڑہ اور دوسرے کھیلوں کے میدان نوجوان نسل کو برائیوں سے روکے ہوئے تھے۔ آج حکومت نے اس میدان میں ہونے والی صحت افزاء سر گرمیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب نوجوان کھیل کے میدان نہ ہونے کی وجہ سے غیر اخلاقی حرکتوں اور آوارہ گردی کی طرف راغب ہونگے اور جرائم میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ نوجوان کھیل اور پہلوانی کے بعد تھک کر گھر جاتے تھے، اب میدان ختم ہونے سے بازاروں اور سڑکوں پر آوارہ گردی کریں گے” نادر خان نے اپنی سادہ اور مختصر بات سے معاشرہ میں کھیل کے میدانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو اقوام عالم نے اپنے کھیل کے میدانوں کی حفاظت کی ہے، اُن میں سے بہت سے میدان آج بھی موجود ہیں۔ ہمارے حکمران کھیلوں کے فروغ پر بات تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آرہا۔
”مگر اب یہاں کرکٹ کھیلنے کے یہ آخری دن چل رہے ہیں”
گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے نوجوانوں سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ”ہم ہر چھٹی کے دن خاص اور ہر شام عمومی طور پر کرکٹ کھیلنے آتے تھے مگر اب یہاں کرکٹ کھیلنے کے یہ آخری دن چل رہے ہیں، حکومت نے ہم سے کھیلنے کا ہمارا حق چھین لیا ہے” سنا تھا کہ منٹو پارک میں بزرگوں کی محفلیں سجا کرتی ہیں، اُن محفلوں کی تلاش میں نکلا تو تعمیراتی کاموں کے درمیان ایک گراؤنڈ میں ایسا لگا کہ شاید مزدورں کے لئے کھانے کا انتظام کیا ہوا ہے،پاس گیا تو وہاں ایک میلے کا سماں تھا۔ بزرگوں کے کتنے ہی گروپ اپنی اپنی محفلیں سجائے بیٹھے تھے۔ دائرے کی شکل میں بیٹھے بزرگ مختلف ٹولیوں میں خوش گپیوں اور تاش کے کھیل میں مشغول تھے۔ میں بھی ایک گروپ کے پاس بیٹھ کر اُن کی باتیں سننے لگا، معافی طلب کرتے ہوئے اپنی بات جاری کی وہ تو جیسے پھٹ ہی پڑے، سب حکومت سے نالاں ہی نظر آئے، اُن کا کہنا تھا کہ ”ہم اپنی بیٹھک کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ تلاش کر ہی لیں گے، حکومت ہمیں کہاں کہاں سے اٹھائے گی
”ہم اپنے گھر والوں کے لئے ایک”عضو معطل“ ہیں، وہ ہم سے خوش نہیں”
یہاں نہیں تو قلعہ میں چلے جائیں گے،ہم یہاں کے رہائشی ہیں ان پارکوں پر ہمارا حق ہے جو یہ ہم سے نہیں چھین سکتے”۔ ایک بزرگ نے کہا کہ ”حکمران تعمیر کے نام پر کمائی کا ذریعہ تلاش کرتے رہتے ہیں، اُن کو منٹو پارک کی شکل میں ایک ذریعہ مل گیا ہے وہ اپنی کمائی کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں” دوسرے بزرگ نے دکھ بری آواز میں کہا کہ ”ہم اپنے گھر والوں کے لئے ایک”عضو معطل“ ہیں، وہ ہم سے خوش نہیں ہیں، ہم جیسے! یہاں آتے تھے مل کر ایک دوسرے کا دکھ بانٹ لیتے تھے،تھوڑا کھیل کر اپنا وقت گزار لیتے تھے،ان حکمرانوں نے ہم سے ہماری مصروفیت اور خوشیاں چھین لی ہیں” ایک اور بزرگ نے بتایا کہ ”جب یہ منصوبہ شروع ہونے لگا تو ہم اپنے علاقہ کے ایم این اے کے پاس گئے تھے، اُس نے ہم کو یقین دلایا تھا کہ منٹو پارک کیساتھ کچھ نہیں کیا جائے گا آپ لوگ بے فکر رہو، مگر دیکھ لو کیا کر دیا ان حکمرانوں نے، جدید پارک کی خاطر ہم سے ہمارا ثقافتی کھیلوں کا میدان تک چھین لیا ہے۔ پہلے یہاں ایک سٹیڈیم بنایا گیا جس پر کروڑوں روپے خرچ کرکے ادھورا چھوڑ دیا گیا اب اُس کو توڑ کر نیا پارک بنایا جارہا ہے، مقصد صرف اور صرف کرپشن سے مال پانی اکھٹا کرنا ہے”
یہاں پر بچوں کے کھیلنے کے لئے جگہ دی جائے گی، شہباز شریف
اگر اس منصوبہ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو (تب کے) وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”اس منصوبہ کی تعمیر کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، جہاں تک کھیلوں کے میدانوں کی بات ہے تو یہاں پر بچوں کے کھیلنے کے لئے جگہ دی جائے گی۔ منٹو پارک میں ایک بڑا رقبہ جھیل کے لئے مختص کیا جا رہا ہے باقی علاقہ میں ٹرین اور دوسری تفریحی سہولیات دی جائیں گی” تب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی پس منظر رکھنے والا پارک ہے، جس پر قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی، اس پارک کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے” شہباز شریف کی بات اپنی جگہ بالکل درست، مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر سے کھیلوں کے میدان ختم ہوتے جارہے ہیں، کیا قوم کے بچوں کو کھیلوں کے میدان مہیا کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں؟ منٹو پارک سے نکلتے وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ تاریخی اہمیت کا حامل پارک مجھ سے شکایت کر رہا ہو کہ”دیکھ لو میرا رنگ روپ بدلنے جارہے ہیں، میں اپنے پرانے سنگی ساتھی اب کہاں تلاش کروں“ میں خاموش اس سوال کا جواب تلاش کرتے یا یوں کہہ لیں آنکھیں چراتا پارک سے باہر نکل گیا۔