Site icon MASHRIQ URDU

مصنوعی ذہانت فائدے ہزار، مسائل بے شمار

Hurtling Toward Our AI Future

مصنوعی ذہانت فائدے ہزار، مسائل بے شمار

تحریر و ترتیب: شہزاد عابد خان

سوشل میڈیا موجودہ دور میں جہاں انقلابی تبدیلیوں کا حامل ثابت ہواہے و ہیں انسانی زندگیوں خصوصاً خواتین کیلئے پریشانیوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔ گھریلو اور خانگی مسائل ایک جانب کہ جن کی وجہ سے خواتین کو اکثر معاشرے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، خواتین کے ذاتی معاملات غذا، صحت اور روز مرہ کی زندگی کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ ٹائم گزارنے والی خواتین فٹنس و بیوٹی سے متعلقہ موادسے متاثر ہو کر صحت و خوبصورتی گنوا بیٹھتی ہیں۔ غیر مصدقہTIPSاور ہدایات کی روشنی میں ڈائٹ پلان ترتیب دیکر یا ماحول اور معاشرت سے یکسر متصادم فیشن سٹائل اپنا کر لڑکیاں اور گھریلو خواتین آپ اپنی ہی دشمن ہو رہی ہیں۔
مگر ابھی ٹھہریں بات اب صرف غیر مصدقہ غذا اور فیشن TIPS تک محدود نہیں رہی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصاویر، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور سکول و کالج میں ہم جماعت طلبہ میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ترتیب دی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کے لیے غیر صحت مند طرز عمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہہ کے بارے میں سوچ کا منفی رجحان بھی پیدا ہوتا جارہا ہے۔ رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح نوجوان لڑکیوں میں تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن غنڈہ گردی یا جنسی ہراسگی کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 12 سے 15 سال عمر تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ ایسی اطلاع دینے والے لڑکوں کی تعداد 8 فیصد تھی۔
ٖفیس بک پر ریسرچ کرنے والی فلوریڈا یونیورسٹی کی پروفیسر پامیلا کے۔کیل کا کہنا ہے کہ معاشرتی اور مثبت رابطوں کے لیے فیس بک اچھی چیز ہے مگر فیشن اور بیوٹی سے متعلق نامور شخصیات کے فیس بک پر موجود پیجز اور اکاوئنٹ سے عام لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد غیر ضروری طور پر متاثر ہو رہی ہے۔جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔نتیجتاً مشہور شخصیات اور ماڈل کے علاوہ اپنی ہم عصر مگر برتر خواتین کے جیسا دکھنے کی بھی دھن سوار ہو جاتی ہے۔ جو بہرحال ایک غیر صحت مند طرز عمل ہے۔ اس منفی رحجان کی وجہ سے لڑکیوں کی کھانے کی عادات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے لڑکیاں غیر ضروری ڈائیٹ پلان ترتیب دے کر اس پر شدومد سے عمل کرتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی صحت شدید متا ثر ہوتی ہے۔
مذکورہ تحقیق کالج کی 960 طالبات پر کی گئی جس کے نتیجہ میں پتہ چلا کہ لڑکیاں اپنی اپ لوڈ کی گئی تصاویر کے معاملے میں کافی حساس ہوتی ہیں اور یہ حساسیت اس وقت کمتری کا جامہ پہن لیتی ہے جب لڑکیوں کو ان تصاویر پر ان کی توقع کے مطابقLikes نہیں ملتے۔ اگر دوستوں کی جانب سے پسندیدگی کا اظہار کم ہو تو لڑکیاں اپنی تصاویر نہ صرف اتار لیتی ہیں بلکہ مزید کچھ نئی تصاویر اور نئے سٹائل سے جلوہ گر ہونے کی کوشش کرتی ہیں جو بعض اوقات مزید سبکی اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں، ڈیپ فیک ایپ سے بنائی گئی تصاویر کی وجہ سے اکثر خود کشی جیسی خبریں بھی میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آپ یوں بھی سوچ سکتے ہیں کہ فیس بک کے استعمال کے دوران لڑکیاں اپنے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں، جس کے اکثر صحت، خوراک، دماغ اور نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اکثر لڑکیاں سوچتی ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟۔۔۔۔۔لوگ جس طرح ان کو سوچتے ہیں وہ ویسا ہی ہونا چاہتی ہیں۔ اس چکر میں اپنی صحت اور خوراک کے معاملات کو شدید متاثر کر لیتی ہیں جب کہ مجرمانہ سوچ کے حامل افراد اُن کی تصاویر کو مصنوعی ذہانت ایپ کے ذریعے غیر اخلاقی تصاویر میں تبدیل کرکے پریشانیوں کا باعث بن رہے ہیں، مطلب سوشل میڈیا نے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے پھیلاؤ خصوصاً لڑکیوں کی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

کامیابی کا سبق سیکھیں! ناکامی سے خوف نہیں

Exit mobile version