مسئلہ کشمیر: عملی اقدامات کی ضرورت
تحریر: سید محسن رضا بخاری
مسئلہ کشمیر کا حل علامتی نہیں، عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ پاکستان کو اس تاریخی موقف پر ڈٹ جانا چاہئے جو قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے اقوام عالم کے سامنے رکھا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ بھارت چاہے جتنا شور مچائے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر قطعاً توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ بانی پاکستان کے موقف کے علاوہ 1948 ء میں جب پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت معرکہ ہوا تو بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور دنیا سے وعدہ کیا کہ وہ اس حوالے سے کشمیریوں کو حق خودارادیت کا موقع دے گا اور اہل کشمیر فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا بھارت سے مگر یہ پاکستان کی ماضی میں ناقص خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر بھارت سے ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکا جو اقوام متحدہ میں منظور ہو چکی ہیں کہ بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت دے گا۔ یوں 70 برس سے یہ مسئلہ زیر التوا پڑا ہوا ہے۔ اس دوران 1965ء اور 1971ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دو جنگیں بھی ہو چکی ہیں کہ بھارت کی شاطرانہ چالوں سے ہم نہ صرف آدھا ملک گنوا بیٹھے بلکہ مسئلہ کشمیر مزید التواء کا شکار ہو گیا۔ ضیاء الحق دور میں ایسے اشارے ملنے شروع ہوئے تھے کہ بھارت اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے پر آمادہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بعد ازاں نوازشریف دور میں اس وقت کے بھارتی وزیر اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تو اعلان لاہور میں طے پایا کہ دونوں ملک بامقصد مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل کریں گے لیکن بعد ازاں کارگل جنگ نے اعلان لاہور کی اہمیت کو جھٹلا کر رکھ دیا اور ہم مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بجائے الٹا عالمی دباؤ کا شکار ہو گئے۔ تاہم یہ ” مسئلہ اب بھی اپنی جگہ حل طلب ہے۔ مسئلہ کشمیر خراب تب ہوا جب 5 اگست 2019 ء کو مودی حکومت نے بھارتی آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا مگر اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت امریکہ کی آشیرباد سے اٹھائے گئے مودی کے جابرانہ اقدام کا مقابلہ کر سکی نہ اس کا کوئی متبادل حل تلاش کر سکی۔ یوں اہل کشمیر کی جانی، مالی اور خواتین کی عفت و عصمت کی قربانیاں بھی سوالیہ نشان بن گئیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اہل کشمیر آج بھی بھارت کے جبر کے باوجود اپنے بنیادی حق آزادی کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ پاکستان ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے یک جہتی کا دن مناتے ہوئے کشمیر میں حق خود ارادیت کی بات تو کرتا چلا آ رہا ہے تاہم بھارت ایسے اقدامات کو علامتی سرگرمیاں تصور کر کے کوئی اثر قبول نہیں کرتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ناقص اور بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی ہے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو اسی صورت موثر بنا سکتا ہے جب تمام ممالک میں ایسے لوگوں کو سفیر بنا کر بھیجے جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو اس طرح سمجھتے ہوں جیسے بھارت کے سفیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر امریکہ سمیت مغربی دنیا مسئلہ کشمیر کو اپنی شاطرانہ چالوں سے ناکام بناتے ہیں تو ہمیں پاکستان کو اقتصادی طور پر نا قابل شکست بنانا چاہئے کہ پاکستان میں اقتصادی اور سیاسی استحکام آئے گا تو عصر حاضر کے شیطان ثلاثہ کی منافقت اور جبر کا مقابلہ ہو سکے گا۔ بصورت دیگر ہمارے ارباب اختیار ہر سال اقوام متحدہ میں جتنی چاہیں مدلل اور پُر جوش تقریریں کر لیں بارڈر پر ہاتھوں کی زنجیریں بنالیں، جلسے کر لیں، جلوس نکال لیں، میڈیا میں اپنا موقف واضح کرلیں، بھارت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے کہ بھارتی قیادت کے نزدیک ہماری یہ تمام سرگرمیاں محض کارروائیاں ہیں جن کا مقصد پاکستان کے عوام کا مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کے حوالے
سے غصہ کم کرنا ہے یا کشمیریوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا تیسرا فریق اور وکیل ہوتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے اسی طور بطریق احسن عہدہ برآ ہو سکتا ہے جب معاشی لحاظ سے مضبوط ملک کے طور پر دنیا کے نقشے میں خود کو منوالے۔ اس کے لئے پہلا کام ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے کہ جب تک ملک سے سیاسی انتشار کا تدارک نہیں ہوتا معاشی استحکام آنا محض خواب رہے گا۔ بیرون ملک بھی بھارت کے مقابلے میں مسئلہ کشمیر پر ہم اسی صورت دنیا پر اپنا موقف واضح کر سکتے ہیں جب باہر جانے والے ہمارے وفود اور متعین ہونے والے سفراء حضرات اتنی اہلیت رکھتے ہوں کہ وہ اس حوالے سے بھارت کے غلط پراپیگنڈا کے اثرات زائل کر سکتے ہوں۔ جب تک ہم ان دو محاذوں پر خود کو مضبوط نہیں کریں گے اس وقت تک ہم بھارت سے مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف نہیں منوا سکتے۔ جہاں تک سیاسی اور عسکری قیادت کے بیانات کا تعلق ہے وہ بھی اسی صورت موثر ثابت ہوں گے جب ہمارے ہاتھ سے کاسنہ گدائی چھوٹ نہ جائے۔ ماضی میں مسئلہ کشمیر پر ہزار سال بھارت سے لڑنے کی بات سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اب 2025 ء میں ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم ہیں، ہم کشمیریوں کو بھارت کے جبر و استبداد سے نجات دلا کر رہیں گے چاہے ہمیں مزید دس جنگیں لڑنی پڑیں۔ اس دلیرانہ بیان سے اہل کشمیر میں خوشی کی لہر کا دوڑ جانا فطری بات ہے مگر کامیابی بھی ہو گی جب بحیثیت قوم ہم متحد ہو کر وطن عزیز کو نا قابل تسخیر بنائیں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ سیاسی انتشار ہی ہماری طاقت کو کمزور کر رہا ہے اس کا تدارک عملاً نہ کرنا افسوس ناک ہی نہیں بلکہ آنے والی
نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تاخیر نہ کریں تا کہ خطے میں قیام امن یقینی ہو۔