لیلۃ القدر نزول رحمت کی رات
رمضان المبارک ویسے تو سارا ہی برکات اور رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ جیسے جیسے یہ برکت و رحمت والے شب و روز گزرتے جاتے ہیں، رحم الہی کی بارشیں فزوں سے فزوں تر ہونے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ تیسرا عشرہ مغفرتوں کی خوشخبریاں سناتا سایہ فگن ہوتا ہے۔ مسلمان مرد و زن توفیق الہی عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت اور استعداد اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے عنایت الہی کے مزید انعام و اکرام کا مستحق بننے کے لئے دنیاوی آلائشوں سے لاتعلق ہو کر اعتکاف کرتے ہیں۔ اعتکاف پر شب و روز کے ذکر الہی اور فکر ایمانی سے اپنی روح پر صیقل کرتے اور ملکوتی صفات کو بیدار کرتے ہیں۔رحمت الٰہی کی ھلوہ فرمائیاں مشاہدہ کیجیئے کہ عین اسی عالم میں کہ بندہ مومن اخلاص و للہیت کی مشقتوں پر خلوص عبادتوں اور ریاضتوں میں اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہوتا ہے کہ عنایت الہی سے لیلتہ القدر جلوہ فرما ہوتی ہے۔ یہ ایسی رات ہے جو اپنی لطافت و پاکیزگی اور نورانیت وجلوہ فرمائی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جس کی تابشوں کے سامنے آفتاب شرمندہ ہوتا ہے بلکہ یہ وہی مبارک و معظم رات ہے جس کی برکتوں اور عظمتوں پر قرآن حکیم شاہد ہے ۔ بے شک ہم نے اسے ( قرآن کریم کو) شب قدر میں اتارا۔ معلوم ہوا کہ یہ ماہ مبارک صرف اسی لحاظ سے ہی مبارک نہیں کہ اس میں انسان صبر و ضبط کی عظیم نعمتوں سے نوازا جاتا ہے بلکہ اس خیر و برکت والے مہینہ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اس ماہ میں دنیا کے لئے بہترین کامل ترین ہدایت نامہ اتارا گیا۔ اس ماہ منور میں انانیت کے ظلمت کدہ کو نورانیت کے بدر کامل سے پر نور بنایا گیا اور اسی بابرکت موسم میں انسان کے کان میں پہلی مرتبہ نغمہ ازل کی پہلی آواز پہنچی جو بے ہوشوں کو بیدار اور ہوشیاروں کو سرشار کرنے والی ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی دولت جس سے اعلیٰ کوئی نعمت اور جس سے برتر کوئی رحمت عالم تصور میں موجود نہیں۔ اس ماہ مبارک کی نورانی آغوش میں پوشیدہ لہلہاتی جگمگاتی نورانیت سے منور روحانیت سے معطر و بابرکت رات ہے جسے خود خالق کائنات نے لیلۃ القدر فرمایا یعنی شرف و برکت والی رات ۔ اس شب مبارک و معظم میں لاریب کلام الہی کے نزول کی ابتداء ہوئی اسی شب میں یہ کلام لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر محمدﷺ کو رسول کریمﷺ رفته رفته حسب مصلحت خداوندی تقریباً 23 سال کے عرصہ میں نازل کیا گیا۔ سب سے پہلی وحی رسول اکرمﷺ پر اسی ماه مبارک یعنی ” رمضان المبارک” کے آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں نازل ہوئی وہ بھی انہی طاق راتوں میں سے کوئی برکت والی رات ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ صاف ارشاد فرمارہی ہے کہ یہ رات معمولی رات نہیں بلکہ وہ رات ہے جس میں کلام ربانی کے نزول کی ابتداء ہوئی۔ ”اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر”، یعنی یہ رات کیسی بزرگیوں اور شرافتوں اور فضیلتوں والی رات ہے اور اپنی جلو میں کیسی کیسی عظمتوں کو لئے آتی ہے یہ کسے معلوم ہے؟ خطبات عرب خصوصاً قرآن مجید کے اسلوب بلاغت کے مطابق زیادہ شوق پیدا کرنے کے لئے سوال قائم کیا جا رہا ہے۔ پھر خود ہی اس کا جواب مرحمت ہوتا ہے اور جواب میں لیلتہ القدر کو دہرانا محض اس کی اہمیت و عظمت کے اظہار کے لئے ہے چنانچہ جواب دیا گیا کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یعنی اجر عبادت اور ثواب اطاعت کے اعتبار سے اس ایک رات کا عمل خیر اور کارطاعت و ثواب اور بندگی رب الارباب ایسے ہزار مہینوں کے عمل خیر و طاعت سے افضل و بہتر ہے جس میں شب قدر شمار نہ ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم نور مجسمﷺ نے گزشتہ امتوں کے ایک اطاعت گزار بندہ مومن کا ذکرفرمایا وہ تمام رات عبادت میں گزارتا تھا اور تمام دن جہاد میں مصروف رہتا تھا۔ اس بندہ مومن نے اسی طرح ہزار مہینے بسر کئے۔