Site icon MASHRIQ URDU

لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے؟

لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے؟لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے
بھاٹی دروازے کی رہائش اور لیڈی ولنگٹن ہسپتال کی پیدائش؛ لاہور سے تعلق کی میری یہ دو بڑی شہادتیں ہیں۔ جی وہ لاہور جہاں ہوش سنبھالنے کے بعد خاندان اورعزیز واقارب میں شادیوں پر ڈھولکی کی تھاپ پر گائے گئے لوک گیت کانوں میں رس گھولتے تھے.
اُچے برج لہور دے اوئے، ہیٹھ وگے دریا وے ماہیا
لیکن یہ لوک گیت شاید ان زمانوں سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہوگا جب دریائے راوی پرانے لاہور کی فصیل کے نیچے بہتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ راوی شہر لاہور سے دور ہوتا چلا گیا اور پیچھے رہ گیا بڈھا راوی جو کھانستا بلغم تھوکتا دم توڑ چکا ہے اور اب جواں راوی کا اور شہر کا رابطہ رکشے اور چنگ چی کا مرہون منت ہے۔ وہ راوی جس نے کبھی لاہور شہر کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا اب اس سے اسکا رشتہ محض چچا بھتیجے والا رہ گیا ہے۔ پھر ذرا ہوش سنبھالی تو پچاس کی دہائی کی فلموں کے گیتوں نے ننھے ذہن میں لاہور کا ایک خوبصورت اور رومانوی خاکہ بنانا شروع کر دیا:
۔ نئیں ریساں شہر لہور دیاں
۔ بھاٹی لوہاری بھئی کلی سواری بھئی
بچپن تھا جب گانوں میں اپنے علاقے کا نام سنتے تو دلی مسرت ہوتی اور خود کو بہت بڑی توپ سمجھتے۔ جو جگہیں نہیں دیکھی تھیں انکے بارے ذہن میں حسین تصویریں بنا رکھی تھیں اور پھر جب والدین ان جگہوں پر لے کر جاتے تو انہیں دیکھ کر اپنے تصوراتی خاکوں میں معمولی سی رد و بدل کرنی پڑتی مثلاً بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر، نور جہاں کی بارہ دری، شملہ پہاڑی وغیرہ وغیرہ۔ اس پرانے لاہور کو اس وقت کی لوک گلوکارہ جگجیت کور نے اپنی سحر انگیز آواز میں کیا خوبصورت خراج تحسین پیش کیا ہے؎
د دس کھاں شہر لہور اندر، بھئی کنے بوہے تے کنیاں باریاں نیں
نال دس کہ اوتھوں دیاں اٹاں، کنیاں ٹُٹیاں تے کنیاں ساریاں نیں
د دس کھاں شہر لہور اندر، کھوئیاں کنیاں مٹھیاں تے کنیاں کھاریاں نیں
ذرا سوچ کے دیویں جواب مینوں، اوتھے کنیاں وہیایاں تے کنیاں کنواریاں نیں
اب بھی یہ نغمہ پورا سن کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ لوک گیت نہیں بلکہ لاہور شہر کی قدیم ثقافت، تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کا منظوم سہرا ہے۔ اور پھر وقت آیا کہ والد صاحب کی ملازمت کے سبب لاہور کے جونیئر ماڈل سکول، قلعہ گوجر سنگھ، منٹو پارک، چڑیا گھراور ایسی اور بہت سی یادگار جگہوں کوالوداع کہہ کر راولپنڈی کو ہجرت کرنی پڑی۔ اور اسکے بعد تو جیسے لاہور میں قیامت آگئی۔ لاہور سے ایک دفعہ پھر وقتی رابطہ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ کے دوران ولولہ انگیز قومی ترانوں کی وساطت سے بحال ہوا۔

لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے

۔ خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
۔ لاہور مرتبت ہے، لاہور زندہ باد
ایک عشرے کے بعد لاہور سے دوبارہ رابطہ اس وقت بحال ہوا جب فوج میں کمیشن لیکر ہم لاہور واہگہ پر مورچہ سنبھالنے پہنچے۔ یہ۱۹۷۲ کی بات ہے۔ اس وقت لاہور میں پہلی بار تبدیلی محسوس کی لیکن یہ غیر محسوس تبدیلی تھی۔ یہ تو پتہ چل رہا تھا کہ لاہور تبدیل ہو رہا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا تبدیل ہو رہا ہے۔ چند سالوں بعد بسلسلہ ملازمت پھر لاہور سے کوچ کیا اور یہی وہ وقت تھا جب لاہور ’’رضیہ غنڈوں کے ہاتھ چڑھ گئی‘‘ کے مصداق، لینڈ مافیا، بے حس سیاستدانوں اور بسلسلہ روزگارشہر پر یلغار کرنے والوں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ اب کے میں مستقل رہائش کیلئے ۲۰۲۱ میں لاہورآگیا۔ یہ رہائشی علاقہ اس جگہ پر ہے جو کہنے کو تو لاہور ہے لیکن میرے بچپن کے لاہور کے رہائشیوں نے اس زمانے میں اسے کبھی منہ بھی نہ لگایا ہوگا کیونکہ اس وقت یہ شہر سے باہر دور دراز ایک رائے ونڈ نامی گاؤں ہوا کرتا تھا۔ لیکن وقت کے شہنشاہ چند سیاستدانوں کی ضد اور خواہش نے اسے لاہور بنا کر ہی چھوڑا اور اب یہ اور اس کا گردونواح لاہور کہلاتا ہے جبکہ اصل لاہوراب بیرونی علاقہ ہوگیا ہے۔
لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے
ایک روز میں نے رکشے پر لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا لیکن جس پرانی جگہ کا نام لوں رکشے والا یا ٹیکسی والا نیا نام پوچھے۔ اب نیا نام مجھے نہیں پتہ ہوتا تھا اور پرانے سے وہ واقف نہ ہوتا کیونکہ وہ لاہور کا پیدائشی نہیں بلکہ پتوکی، مریدکے، کاہنہ یا کسی اور نزدیکی قصبے یا گاؤں کا رہنے والا ہوتا جو مزدوری کے سلسلہ میں لاہورآیا تھا چنانچہ کسی بھی جگہ جانے سے قبل تھوڑی سی کسوٹی کھیلنی پڑتی۔ پرانے جاننے والوں کا کھوج لگانا شروع کیا تو خاصی تعداد بیرون ملک ہجرت  کرچکی تھی جبکہ کچھ اسلام آباد کراچی بھی منتقل ہو چکے تھے۔ اور لاہور اب مکمل طور پر لینڈ مافیا اور قبضہ گروہوں کے ہتھے چڑھ چکا تھا جنہوں نے اس رومانوی شہرکو مکمل طور پر کنکریٹ اور سریے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہوا ہے۔ بقول میرے ایک دوست کے اب یہاں بڑی بڑی سوسائٹیوں کے بڑے بڑے عالیشان محلوں میں چھوٹے چھوٹے دلوں والے لوگ رہتے ہیں۔
ایک روز میں پیدل واک کیلئے پی آئی اے روڈ پر نکلا۔ مختلف راہگیروں، دوکانداروں اور خوانچہ فروشوں سے صاحب سلام کرتے ہوئے ہرایک سے ایک ہی سوال کرتا رہا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ تقریباً سو ڈیڑھ سو بندوں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ وہ لاہورکا رہائشی ہے ۔ سب نے جواب میں ہڈیارہ، برکی، واہگہ، پتوکی، چھانگا مانگا، جیا بگھا اور دیگر نواحی علاقوں کا نام لیا۔ اس سروے کے بعد میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ گنتی کریں تو ہر پانسو افراد میں سے شاید ہی ایک شخص ’’لاہوریا‘‘ نکلے گا۔ اگر آپکو شک ہے تو راہ چلتے کسی شخص کو روک کر چند مخصوص فقرے اورالفاظ بولنے کو کہیں مثلاً ’’گھڑے تے چڑی بیٹھی وٹا ماریا پھر کرکے اُڈ گئی‘‘ اگر وہ کہے ’’گھرے تے چری بیتھی وتا ماریا پھُل کلکے اد گئی ‘‘ تو وہ بلا شبہ لاہوریا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آپکو ایک بھی لاہوریا نہیں ملے گا۔ آپکو تو اگر ت کو ٹ اور ٹ کو ت اور ر کو ڑ اور ڑ کو ر کہنے والا بھی کوئی ایک آدھ مل جائے تو غنیمت ہوگی۔ میں تو لاہور کی مخصوص زبان سننے کو ترس گیا ہوں۔ آؤ باؤ جی، او شہزادے بسم اللہ، او جگڑ جان دے، پلوان جی آؤ بیٹھو۔ اب تو نہ وہ گلیاں ہیں نہ بازار جہاں صبح سبزی والے اور ہاکروں کی آوازیں آتی ہیں، ہینڈ پمپ چلتا ہے، حلوائی کی دکان پر پوریاں لگانے کیلئے تالیاں بجتی ہیں۔ اس لئے کہ سیاستدانوں اور کاروباریوں کے خونخوار جبڑوں نے نئے لاہور کا تیا پائنچہ کرنے کے بعد اب اندرون لاہور کا رخ کرلیا ہے۔ تزئین نو کے نام پر پرانی حویلیوں اور عمارات پر قبضہ کرکے انہیں چائے خانوں اور نوادرات کی ایسی دکانوں میں تبدیل کر رہے ہیں جن کا اندرون لاہور کی ثقافت اور بود باش سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک خاتون نے تو پیسہ کمانے کیلئے مشہور مصور صادقین کو گلی سجان سنگھ میں جا بٹھایا ہے۔ ادھر ادھر سے ری پروڈیوسڈ تصویریں اور پینٹنگز کی نقلیں دیواروں پر سجا کر اور دو تین بے سرے فنکاروں کو بٹھا کر چائے کا کپ بیچتی ہیں جن کا اندرون لاہور کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ حضرات پرانے دروازے اور ٹوٹا پھوٹا فرنیچر سجاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب اندرون لاہور کی حویلیوں سے برآمد ہوا ہے۔
لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے
وہ لاہور جہاں شدید بارشوں کے بعد بھی کبھی ایک گھنٹے سے زیادہ سڑکوں پر پانی نہیں ٹھہرتا تھا اب دس دس دن پانی اترتا نہیں۔ انتظامیہ کو بارش کے بعد سیلاب کا پانی اتارنے کی فکر سے زیادہ وہ جزیرے ڈھونڈنے کی فکر ہوتی ہے جہاں کھڑے ہوکرٹک ٹاکروزیراعلیٰ نے سیلاب کا نظارہ کرتے ہوئے فوٹو سیشن کروانے ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ نئے کھانچے فٹ کرنے کیلئے اب کنال روڈ کے ساتھ ساتھ ٹھوکر سے ہربنس پورہ تک ایک نئی میٹرو لائن (پیلی لین) بچھانے کی تیاری مکمل کر لی گئ ہے جس کی زد میں لاہور کی اس دوسری ٹھنڈی سڑک کے اندازاً چودہ سو تناور اور سایہ دارشجرآئیں گے جن کا قتل، آکسیجن کے ایک لازمی ذریعے کے ’’بلات کار‘‘ اور ماحولیاتی بفر کے خاتمے سے کم نہیں۔
مجھے لاہور سے محبت تھی ہے اور رہے گی لیکن کس لاہور سے؟ 1950 کے لاہور سے یا اینٹوں، کنکریٹ سریوں اور پلازوں کے آج کے ڈھیر سے؟ آج کے لاہور کو دیکھتا ہوں تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہوں کہ یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے۔ مانتا ہوں کہ اس میں لاہور کا اپنا کوئی دوش نہیں لیکن بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے ’’ لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟‘‘
سہیل پرواز
ھیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔
لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے

’’پاکستان کی خیر ہے‘‘

لاہور تمہیں کیا ہو گیا ہے
Exit mobile version