قومی یک جہتی کے تقاضے
وطن عزیز میں قومی یک جہتی اور سیاسی استحکام کی ضرورت و اہمیت ہمہ وقت مسلمہ ہے، مگر افسوس کہ اس طرف حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے مخلصانہ کوششیں ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ ماسوائے دونوں طرف سے خانہ پری ایسے بیانات کے جو اکثر حالات کے تناظر میں سیاق و سباق سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس غیر یقینی صورتحال سے وطن دشمن طاقتیں بھرپور فایدہ اٹھا رہی ہیں۔
قومی یک جہتی اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہو، انصاف کا بول بالا ہو، تھانہ اور پٹواری کلچر کا تدارک یقینی بنانے کے لیے عملی اور مخلصانہ کوششیں ہوں، عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر ملے، اگر یہ مسائل حل نہیں ہوں گے تو عوام اور حکومت کے مابین مثالی تعلقات کا تواتر سے قائم رہنا محض خواب رہے گا، جس کے شوقیہ دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں جو چاہے جب چاہے دیکھتا رہے۔
ہمیں ایسے اتحاد کی ضرورت جو تمام قومی امور و معاملات پر دائمی ہو تاکہ عصرِ حاضر کے شیطانِ ثلاثہ پر واضح ہو سکے کہ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام اور حکومت یک جان دو قالب ہیں۔ اس یک جہتی کی بڑی مثال گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگ تھی، جس میں بوقت ضرورت قوم اور عساکر پاکستان اپنے اپنے محاذ پر اپنے ازلی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے اور پھر اقوام عالم نے بھارت کو ذلت اور رسوائی سمیٹتے کھلی آنکھوں دیکھا۔
مگر افسوس کہ افواجِ پاکستان نے جن پچیس کروڑ عوام کی بھر پور حمایت سے یہ جنگ جیتی تھی، اسے امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے بند کرتے وقت اُن عوام کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا گیا، حکومت کا یہ اقدام عوام کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنا۔
قومی یک جہتی کے تقاضے
ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں 1965ء کی جنگ میں بھی یہی ہوا 1971ء میں بھی ایسا ہی ہوا اور اب بھی ایسا ہی ہوا، بھارت کو شکستِ دوچار ہوتے دیکھ کر اگر ٹرمپ نے جنگ بند کرنے کا کہا بھی تھا تو ایک دو گھنٹوں میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختصر سی تقریر کرکے عوام کو اعتماد میں لے لیتے اس سے نہ صرف عوام خوش ہوتے بلکہ وزیر اعظم کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
افسوس کہ ہمارے ہاں یہ مثبت روایات کا آغاز ہی نہیں ہو پایا۔ ملک میں آمریت رہی ہو یا جمہوریت، عوام جو کہ پاکستان کے حقیقی وارث ہیں ان سے اہم قومی امور پر مشاورت کی زحمت کبھی کسی حکمران نے نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سیاسی استحکام ہے نہ حکومت اور عوام میں مثالی ہم آہنگی، یہ صورت حال کسی بھی صورت ملک کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں، خاص طور مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے عوام کے جزبات کی قدر نہ کرنا، عوام کو حشرات الارض سمجھنے کے مترادف ہے۔
عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے اربابِ اختیار اور مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ اگر عوام ان کا احترام کرتے ہیں تو وہ بھی اُن کا احترام یقینی بنائیں تاکہ ملک مضبوط ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
آمین یا رب العالمین
قومی یک جہتی کے تقاضے