Site icon MASHRIQ URDU

قرآن و سائنس، حقائق اور مشاہدات

Most Distant Quasar
شہزاد عابد خان

قرآن و سائنس، حقائق اور مشاہدات

تحریر و ترتیب: شہزاد عابد خان

اس لا محدود کائنات اور جس نقطہ نما زمین نامی ٹکڑے کے ہم باسی ہیں، کیسے وجود میں آئی؟ زمین، آسمان، ستارے اور وہ سب کچھ جس کے بارے میں انسان ابھی تک ناآشنا ہے ان میں قائم توازن، ہم آہنگی اور نظم وضبط کس کے حکم کا تابع ہے؟ یہ کرہ ارض ہمارے رہنے کے لئے موزوں ترین اور محفوظ قیام گاہ کس کے حکم سے بن گئی؟ زمین پر چرند پرند، نباتات اور انسان کو زندہ رکھنے کے لیے پانی کہاں سے اتارا گیا؟ کیا یہ سب کوئی سائنس کا کرشمہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور طاقت کار فرما ہے؟ ایسے تمام سوالات بنی نوع انسان کے ازل سے توجہ کا مرکز رہے۔ ان جوابات کی تلاش میں سرگرداں سائنس دان اور فلسفی اپنی عقل و دانش کی بدولت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی صورت گری اور اس میں موجود نظم و ضبط کسی اعلی ترین ہستی کی شہادت ہے جو تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے۔ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے جس تک ہم اپنی عقل و فہم استعمال کرتے ہوئے ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس حقیقت کا اعلان اپنی مقدس کتاب”قرآن مجید“میں چودہ سو برس قبل واشگاف الفاظ میں فرما دیا تھا۔

”بیشک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے پیدا کیے آسمان اور زمین چھ دنوں میں پھر متمکن ہوا عرش پر وہ ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن پر (یا رات کو ڈھانپ دیتا ہے دن سے) جو اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور اس نے سورج چاند اور ستارے پیدا کیے جو اس کے حکم سے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں آگاہ ہوجاؤ اسی کے لیے ہے خلق اور (اُسی کے لیے ہے) امر بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے“
(سورۃ الاعراف، آیت: 54) الاعراف 

قرآن کریم میں اللہ تبارک تعالی اولادِ آدم کو بار بار کائنات کی تخلیق اور اس میں قائم نظم و ضبط کو سمجھنے اور اس کا نظارہ کرنے کی دعوت دیتا ہے.

جیسا قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

”اُسی نے اُوپر تلے سات آسمان بنائے، تو رحمن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ ذرا دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ،کیا تجھے کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ O (ہاں) پھر بار بار آنکھ اُٹھا کر دیکھ (ہر بار) تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی“
(سورۃ الملک،آیت:3 تا4)

اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

”فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اُس نے مخلوق کی (زندگی کی) اِبتداء کیسے فرمائی، پھر وہ دُوسری زندگی کو کس طرح اُٹھا کر (اِرتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے، بیشک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت والا ہے“
(سورۃ العنکبوت، آیت:20)

اہل ایمان، مشرک و کفار اس کائنات کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے سمجھنے میں سرگرداں ہیں، اہل ایمان اللہ کی بنائی اس تخلیق کو سمجھنے کے لیے قرآن کا سہارا لیتا ہے جب کہ اہل مغرب سائنس اور جدید ایجادات کی مدد سے کائنات کی کھوج میں مصروف ہیں۔ مومن اپنی عقل سے کام لینے کے لیے اپنے اعضا و جوارح سے کام لیتا ہے۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے، پھر سمجھتا ہے اس پر عمل کرتا ہے، نجات اور کامیابی نصیب ہو جاتی ہے۔ کافر اپنے اعضا سے کام نہیں لیتا، نہ بصارت سے، نہ سماعت سے وہ سائنسی آلات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے وہ کائنات کو کھوجنے کی جستجو میں تو لگا ہوا ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا وہ نہ ہدایت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ نصیحت سن سکتے ہیں۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب واضح ہے۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروَٹوں پر اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں مذید غور و فکر کرتے رہتے ہیں، اَے ہمارے رب! تو نے یہ بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے“
(آل عمران، آیت: 190 تا 191)

پانی کے بارے وائرل پوسٹ

APM 08279+5255

حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس کے مطابق خلا میں پانی کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا ذکر کیا گیا۔ پوسٹ کچھ اس طرح تھی کہ ”سائنسدانوں کی جانب سے ایک حیرت انگیز دریافت سامنے لائی گئی ہے جس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ اور ناسا کے تحت کام کرنے والے ادارے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مطابق سائنسدانوں کو کائنات کے ایک دور دراز حصے میں پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ملا ہے۔ یہ ایک خاص قسم کے ستارے کے گرد چکر لگا رہا ہے، جسے quasar کہا جاتا ہے جو 12 بلین نوری سال کی ناقابل یقین حد تک فاصلے پر موجود ہے۔ پانی کا یہ ذخیرہ اس وقت سے خلا میں سفر کر رہا ہے جب کائنات بہت چھوٹی تھی۔ یہ دور دراز پانی کا ذخیرہ ناقابل یقین حد تک بڑا ہے، جس میں زمین کے تمام سمندروں سے تقریباً 140 کھرب سمندروں سے بھی زیادہ پانی موجود ہے۔ یہ ایک بہت بڑے بلیک ہول کے قریب واقع ہے جو ہمارے سورج سے تقریبا 20 بلین گنا بڑا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق خلا میں ایک بہت بڑا بلیک ہول اے پی ایم 08279+5255 نامی کواسر سے گھرا ہوا ہے، جو کہ ایک ہزار ٹریلین سورج کے برابر توانائی کی ایک بڑی مقدار جاری کرتا ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس کواسر میں پوری کائنات کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ دور معلوم پانی کا ذخیرہ ہے۔

کواسر

ناسا کی تحقیق

خلائی تحقیقات کے ادارے ناسا کے سائنسدان بریڈ فورڈ نے کہا ہے کہ اس کواسر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ مقدار میں پانی بنا رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی پوری کائنات میں ابتدا سے ہی موجود ہے“۔بریڈ فورڈ نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر 2008ء میں اپنی تحقیق کاآغاز سدرن کیلیفورنیا اور ہوائی کی پہاڑیوں پر ایک خاص قسم کی ٹیلی سکوپ لگا کر کیا، اسی طرح ایک دوسرے گروپ جس کی قیادت طبیعات کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور کالٹیک سب ملی میٹر آبزرویٹری کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیریوس لیس نے کی، 2010ء میں اس ٹیم نے APM-8279+5255 میں پانی کا سراغ لگا یا، اُن کی رپورٹ کے مطابق پانی کے بخارات اور دیگر مالیکیولز جیسے کاربن مونو آکسائیڈ اس کواسرکے گرد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اس پوسٹ کے سچ یا جھوٹ سے قطع نظر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پانی کا یہ ذخیرہ اس وقت سے خلا میں سفر کر رہا ہے جب کائنات بہت چھوٹی تھی۔ اللہ کی بنائی اس کائنات میں کیا پانی کا کوئی ایسا ذخیرہ موجود ہے یا نہیں اس کے بارے ہم معلومات نہیں رکھتے۔
مگر قرآن کریم جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے اس کی روشنی میں کائنات اور زمین پر زندگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے احکام الٰہی اور روشن دلائل موجود ہیں۔ زمین پر زندگی کا تصور پانی کے بغیر ممکن ہی نہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتیس مرتبہ فرمایا، جس میں اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا ہے۔

اللہ تعالی کائنات کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

ترجمہ:”کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ بنایا؟ اور پہاڑوں کو میخیں اور ہم نے تمہیں جوڑے پیدا کیا اور تمہاری نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا اور رات کو ڈھانپ دینے والی بنایا اور دن کو روزی کمانے کا وقت بنایا اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ایک نہایت چمکتا چراغ (سورج) بنایا اور بدلیوں سے زور دار پانی اُتارا۔ تاکہ اس کے ذریعے اناج اور سبزہ نکالیں۔ اور گھنے باغات“ (سورۃ النباء, آیت: 8 تا 16)

اسی طرح اللہ تعالی آسمان سے پانی اتارنے کا ذکر فرماتا ہے۔

ترجمہ:”وہی ہے جس نے اپنی رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجا جو خوشخبری دینے والی ہیں اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا تاکہ ہم ا س کے ذریعے کسی مردہ شہر کو زندہ کریں اور وہ پانی اپنی مخلوق میں سے جانوروں اور بہت سے لوگوں کو پلائیں“۔(سورۃ الفرقان۔ آیت:48 تا 49)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مذید فرماتا ہے کہ

”اسے ہر چیز پر قدرت ہے۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا۔ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا“۔ (سورۃ ہود آیت: 8)

قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تعالی نے زمین اور آسمان کی تخلیق کا ذکر کیا اور ساتھ میں یہ فرمایا کہ یہ سب انسان کو آزمانے کے لیے ہے کہ کون اچھے اعمال کا مالک ہے اور کون برے اعمال کرتا ہے، مطلب یہ زندگی اصل میں ہمارے لیے ایک آزمائش ہے۔

ترجمہ:”اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو صاف صاف جادو ہی ہے“۔(سورۃ ہود۔ آیت نمبر7)

ان آیات مبارکہ کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مادی اشیاء میں سب سے پہلے پانی پیدا کیا گیا۔ اس آیت اور مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہو چکی تھی یہ پانی کہاں تھا؟ آیا یہ وہی پانی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں یا کوئی مائع قسم کا مادہ ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے بالا ترہیں اور انھیں سمجھنے کے لیے ہم اہل بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے قبل اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں کے بھی اوپر ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ

”آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم ہی اس میں توسیع کر رہے ہیں۔“
(سورۃ الذاریات، آیت: 47)

علماء کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ

کائنات میں بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ زمین کی پیداوار بھی اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے یہاں آسمان سے مراد پہلا آسمان یا کوئی خاص آسمان نہیں بلکہ یہاں سماء سے مراد رب العزت کی تخلیق کردہ تمام کائنات مراد ہے جس میں لاتعداد ستارے اور کہکشائیں سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ سائنس دان جوں جوں پہلے سے زیادہ طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجسام فلکی بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔


اللہ تعالی چاہے تو آسمانوں کو وسعت دے سکتا ہے اور دے رہا ہے۔ اہل مغرب آج بھی کائنات کو سائنس اور جدید آلات کی مدد سے کھوجنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں جیسا کہ 1929ء میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے اس وقت فلکیات کی تاریخ میں اپنے تئیں ایک بہت بڑی دریافت کی جب وہ ایک بڑی دوربین کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کررہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ ستاروں سے نکلنے والی روشنی، طیف (Spectrum رنگوں کی پٹی جیسے قوس قزح میں نظر آتی ہے) کے سرخ سرے میں منتقل ہورہی ہے اور جو ستارہ زمین سے جتنا دُور ہے، یہ منتقلی اتنی ہی نمایاں ہے۔ سائنس کی دنیا کے لیے یہ ایک تہلکہ خیز دریافت تھی کیونکہ طبیعات کے اصولوں کے مطابق اگر کسی روشنی کا طیف (Spectrum) نقطہ مشاہدہ (پوائنٹ آف آبزرویشن) کی جانب سفر کررہا ہو تو وہ بنفشی رنگ میں تبدیل ہوجائے گا جبکہ روشنی کا یہ طیف نقطہ مشاہدہ سے دور ہو رہا ہو تو اس کی روشنی سرخ ہو جائے گی۔ ہبل نے اپنے مشاہدات میں دیکھا کہ روشنی سرخ ہوگئی ہے۔  مطلب ستارے ہم سے مسلسل دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہبل نے ایک اور اہم دریافت کی تھی کہ ستارے اور کہکشائیں نہ صرف ہم سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دُور ہوتے جا رہی ہیں۔ اس مشاہدے سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ جہاں ہر شے دوسری شے سے دُور ہو رہی ہے اس سے صرف یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کائنات مستقل طور پر پھیل رہی ہے۔
نظریاتی طور پر تو یہ بات اس سے پہلے ہی دریافت کی جاچکی تھی جس پر معروف سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے یہ بات نظری طور پر کی تھی کہ کائنات ساکن نہیں ہوسکتی تاہم اس نے اپنے نظرئیے کا بہت زیادہ تذکرہ نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت ساکن کائنات کا نمونہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا تھا بعد میں اس بات کو ہبل کے مشاہدات نے ثابت کردیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔
لیکن بات یہاں پر آکر رکتی ہے کہ کائنات کی تخلیق کے سلسلہ میں کائنات کے پھیلاؤ کی آخر حیثیت کیا ہے؟ کائنات کے پھیلاؤ کو اگر ہم پہلے کے وقت میں دیکھیں تو یہ ثابت ہوگا کہ کائنات ایک واحد نقطے (سنگل پوائنٹ) سے وجود میں آئی۔ تخمینہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس ”واحد نقطے“ (جس میں تمام کائنات کا مادہ سمایا ہوا ہوگا) کا حجم صفر اور کثافت لامتناہی (Infinite) ہوگی چنانچہ ایک دھماکے کے بعد اس کائنات کا آغاز ”صفر حجم“ (زیرو والیم) سے ہوا ہوگا۔ یہ عظیم دھماکا جس سے کائنات کا آغاز ہوا، ایک نظرئیے کے طور پر ”بگ بینگ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
”صفر حجم“ ایک نظری وضاحت ہے جس کے ذریعے سائنس کسی شے کے ”عدم وجود“ کو ثابت کرتی ہے جو انسانی فہم سے ماورا ہے لہٰذا ایک نقطے کو صفر حجم تسلیم کرکے ہی بات واضح کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ”صفر حجم والے ایک نقطے“ کا مطلب اس کا ”عدم وجود“ ہے۔ گویا کائنات ”عدم“ سے ”وجود“ میں آئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ ”تخلیق“ کی گئی ہے۔
بگ بینگ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ ابتدا میں تمام اجسام ایک ٹکڑا تھے اوربعد ازاں یہ الگ الگ ہوئے۔ وہ حقیقت جسے بگ بینگ نظرئیے نے ظاہر کیا، اس حقیقت کو اللہ تعالی نے ”قرآن مجید“ میں چودہ صدی قبل بیان کر دیا تھا۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

”اور کیا جن لوگوں نے کفر کیا یہ نہیں دیکھا کہ بے شک سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ کیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی، تو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے“۔
(سورۃ انبیاء، آیت: 30)

بگ بینگ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ ابتدا میں تمام اجسام ایک ٹکڑا تھے اور پھر یہ علیحدہ علیحدہ ہوئے۔ مطلب جو بات اللہ تبارک تعالی نے چودہ سو سال قبل آپ صلی علیہ وسلم پر وحی کی صورت میں قرآن کریم میں ارشاد فرما دی تھی، وہ بات آج کے جدید دور میں سائنسدان اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

سورۃ البقرہ۔ آیت: 255 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

”اللہ وہ معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ زندہ ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے نہ نیند،سب کا قائم رکھنے والا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے کون ہے وہ جو شفاعت کرسکے اس کے پاس کسی کی مگر اس کی اجازت سے! وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو اللہ چاہے اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین پر محیط ہے اور اس پر گراں نہیں گزرتی ان دونوں کی حفاظت اور وہ بلند وبالا (اور) بڑی عظمت والا ہے“۔
اس آیت سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ تمام علوم کا مالک صرف اللہ تبارک وتعالی کی ذات پاک ہے، وہ رب کائنات اور تمام علوم کا مالک انسان کو بس اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ سائنسدانوں کے مشاہدات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی کی اس لامحدود کائنات کو سمجھنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں اس لیے کہ اللہ تعالی انسان کو اتنا ہی علم ہی عطا فرماتا ہے جتنا انسان اپنے اندر سما سکے۔

اب اگر آپ کائنا ت کی تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہیں تو جان لیجئے کہ تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے اور اولاد آدم کے لیے یہ دنیا دارالامتحان ہے جس کا ذکراللہ تعالی سورۃ ہود آیت 7میں بیان فرما چکا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے کئی حقائق ابھر کر سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے۔ یہ زمین، یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ہوائیں اور یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے۔
قرآن میں بیان کردہ ان حقائق کو انسان آج کی جدید سائنسی دور میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان سے حاصل کردہ مشاہدات کو اپنی بہت بڑی کامیابی مان رہا ہے جب کہ اللہ تعالی نے یہ تمام حقائق آ ج سے چودہ سو برس قبل اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عیاں فرما دیئے اور آپ کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان تک پہنچا دیئے مگر بد بختی ہے اُن لوگوں کی جو آج بھی اللہ تعالی کی وحدانیت کا انکار کرتے اور اس کو الٰہ ماننے سے منکر ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے کہ

”اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے“۔ (سورۃ البقرہ آیت:7)
یعنی ان پر شیطان غالب آگیا اوروہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی گئی یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں اور ان کے کانوں پرسبت کردی گئی جب کہ ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا۔ مختصر یہ کہ ان کے لیے راہ ہدایت کے تمام راستے مسدود کردیئے گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے (مفہوم) کہ
”تمام لوگوں کو مسلمان کردینا میرے لیے کون سا مشکل تھااور یہی امتحان ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کو اسلام کی نعمت سے مالامال فرمایا تو کسی کو کفر پر قائم رکھا“
اس سارے مضمون میں ہم نے قرآن میں بیان کردہ اُن حقائق کا تذکرہ کیا ہے جو آج سائنس دان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ خیالات ایسے بھی ہیں کہ سائنس دان یہ علم قرآن سے لے کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سائنس دانوں کو جھٹلانے کا علم رکھتے ہیں اور اگر ہم سائنسدانوں کے مشاہدات اور اُن سے حاصل کئے گئے نتیجہ کو سامنے رکھیں تو یہ خیال جنم لیتا ہے کہ جو علم اللہ تبارک تعالی نے چودہ سو سال قبل قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچایا اس علم کی روشنی میں اہل مغرب دین اسلام کو حق جانتے ہوئے اپناتے کیوں نہیں؟ یہاں سورۃ البقرہ کی آیت 7یاد آجاتی ہے جس میں اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ یہ لوگ اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔
اگر اہل مذہب سائنس کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ پہلے خود سائنس کا اچھا علم حاصل کریں، ورنہ وہی نتیجہ ہوگا جو موجودہ زمانے میں اکثر مسلمان علما کے مسئلہ ارتقا کو جانے بغیر اس پر کلام کرنے کا ہوا ہے۔

موہنجودڑو ایٹمی حملے میں تباہ ہوا

 

Exit mobile version