Site icon MASHRIQ URDU

شہری مسائل: ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ

شہری مسائل: ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ

اصغر علی کھوکھر
6اگست کو مقامی ہوٹل میں (ر) جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کی زیر صدارت منعقد ہونے والے شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں اہم سماجی مسئلہ "شہری مسائل ‘ناقص منصوبہ بندی اور رہائش کا بحران: اجتماعی ذمے داری” زیر بحث تھا۔ ڈاکٹر نوید الٰہی نےکہا کہ یہ ہمارا المیہ ہے کہ اول تو کسی حکومت نے چھوٹے بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل یا آبادیوں کی تعمیر کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی نہیں اور اگر کبھی اس ضمن میں کوئی منصوبہ بندی کی بھی گئی تو فائلوں میں ہی دفن رہی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس ناقص کارکردگی کے نتائج یہ سامنے آئے ہیں کہ چھوٹے بڑے تمام شہریوں کے مکین مسائل در مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ نئی رہائشی سکیموں کی منصوبہ بندی کرتے وقت تمام سٹیک ہولڈروں کے تحفظات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ قوانین کی پاسداری کی جاتی ہے۔
ایک مافیا ہے جو دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ یہ اتنا با اثر ہے کہ ملکی قوانین اس کے سامنے موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ آبادی کا دباؤ شہروں کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انتظامی نوعیت کے مسائل روز افزوں ہیں، بڑے بڑے پلازے اور رہائش گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں، جن میں اکثر ایسی ہیں جن کے نقشے قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں بنتے، جن ارباب اختیار کو ان کاموں کی نگرانی کرنی ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو روکنا ہے ان کی سیاسی مجبوریاں ان کے پاؤں کی زنجیریں بنی ہوئی ہیں ان منفی رویوں کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔
جناب قیوم نظامی نے کہا کہ جوں جوں شہروں میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے، معیار زندگی گر رہا ہے، عام آدمی کے لیے شیروں میں رہائش اختیار کرنا بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، مالی اور اخلاقی کرپشن کلچر کی صورت اختیار کر چکی ہے، ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں کے بدلنے سے پالیسیوں میں تسلسل قائم نہیں رہتا، ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کی تعمیراتی پالیسیوں کو یکسر نظر انداز کر کے نئی منصوبہ سازی شروع کر دیتی ہے، جس سے نہ صرف وقت اور سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے بلکہ گمبھیر مسائل جنم لیتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کو بحال اور با اختیار بنا کر شہروں میں درپیش مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
شہری مسائل
ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کہا کہ اجتماعی عقل و دانش کا فقدان بڑھتے شہری مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کہا کہ آئین سے انحراف مسائل کو جنم دیتا ہے، حیرت ہے جمہوریت کے دعویدار ملک میں بلدیاتی اداروں کے مستقبل قیام اور بااختیار بنانے پر آمادہ نہیں، آج ملک بھر میں مقامی حکومتوں کی عملداری قائم ہو جائے تو ان شہری مسائل سمیت درجنوں سماجی مسائل چند مہینوں میں حل ہو جائیں گے، ویسے بھی شہروں اور دیہات میں گلیاں بنانا، سٹریٹ لائٹس لگوانا یہ ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کی ذمے داری نہیں، یہ مقامی حکومتوں کا کام ہے، جب تک بلدیاتی ادارے فعال اور با اختیار نہیں بنائے جائیں گے شہری مکینوں کے مسائل اس طرح سر اٹھاتے رہیں گے۔
جناب ثمر جمیل، ڈاکٹر اے آر چوہدری، رانا امیر احمد خان، پروفیسر مشکور صدیقی، پروفیسر نصیر اے چوہدری، اور دیگر نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسائل جتنے پرانے اور پیچیدہ ہوں، نیت صاف، ارادے مضبوط اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجزن ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وسائل کے ہوتے ہوئے عوام کے مسائل حل نہ ہوں۔ ایک تو انتظامیہ میں کالی بھیڑوں کی موجودگی مسائل کا حل اپنے انداز میں چاہتی ہیں، اس لیے کہ ان کے مالی مفادات اسی طرح پورے ہوتے ہیں، دوسرا سرخ فیتہ ہے جس کہ رضا مندی کے بغیر ہمارے ہاں کوئی کام نہیں ہو سکتا، یہ طبقہ اتنا با اختیار ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ مافیا نہ چاہے تو قانونی طور پر منظور نقشے پر بھی عمارت نہیں بن سکتی اور چاہے تو غیر قانونی نقشے پر بھی عمارت تعمیر کرا دے جس ملک میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو اختیارات والے تاحکم ثانی محفوظ کرا لیں اور فیصلہ آ بھی جائے تو ردی کی ٹوکری کی نظر کردینے والے موجود ہوں وہاں عام آدمی کے مسائل کیسے اور کون حل کرسکتا ہے۔
اس موقع پر مقررین نے ہمدرد (وقف) پاکستان کی چیئرپرسن محترمہ آپا سعدیہ راشد کو اس اہم سماجی مسئلے کو زیر بحث لانے پر خراج تحسین پیش کیا۔

ہمدرد شوریٰ اجلاس: پاکستان ناقابل تسخیر ہے، مقررین کا اظہار خیال 

شہری مسائل
شہری مسائل
شہری مسائل
Exit mobile version