سندھ طاس معاہدہ معطل!پاکستانی ردعمل و اثرات
گزشتہ روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں فائرنگ سے 26 سیاح ہلاک ہو گئے۔ ہلاک افراد میں بھارتی سیاحوں سمیت غیر ملکی سیاح، بھارتی بحریہ کا افسر اور ایک انٹیلی جنس بیورو کا اہلکار شامل ہیں۔ اس واقعے کے ایک روز بعد بھارت نے تمام پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کردیے اور 48 گھنٹے میں پاکستانی شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس واقع کے بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کو سارک کے تحت دیے گئے ویزے بند کر دیے گئے ہیں۔ جو پاکستانی اس وقت بھارت میں موجود ہیں اُن کے ویزے منسوخ تصور کئے جاتے ہیں۔ اٹاری واہگہ بارڈر بھی بند کردیا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو ویزہ نہیں ملے گا۔ بھارت میں موجود پاکستانی 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑ دیں۔ اس کے ساتھ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ نے انڈس واٹر معاہدہ بھی معطل کردیا۔
انڈس واٹر معاہدہ کیا ہے؟
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 19 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں کراچی میں دستخط ہوا۔ اس پر پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے۔ یہ دنیا کا سب سے کامیاب بین الاقوامی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے، جس نے 3 جنگیں (1965، 1971، 1999) اور متعدد تنازعات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔
اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ اور اس کے ساتھ دوسرے دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس، ستلج کو دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ بھارت کو مشرقی دریاؤں راوی، بیاس، ستلج کا کنٹرول دیا گیا، جبکہ پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، جہلم، چناب کے پانی پر حق دے دیا گیا۔ اگر یہ معاہدہ ختم یا معطل کیا جاتا ہے تو اس کے خطہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر ماہرین اپنی اپنی آرا دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کے دفاعی تجزیہ کاروں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام دہشت گردی واقع کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ سیاسی رہنما اور بین الاقوامی امور کے ماہر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے بہانا بنایا ہے جب کہ سابق سفیر عبدالباسط نے اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدشہ ہے بھارت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اجلاس میں بھارتی اقدامات کے خاطر خواہ جواب دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
معاہدے کے ختم ہونے سے پاکستان کو ممکنہ نقصانات
-
پانی کی قلت: پاکستان کی زراعت کا 90% انہی دریاؤں پر انحصار ہے۔ معاہدہ ختم ہونے سے پانی کی تقسیم میں خلل پڑ سکتا ہے۔
-
معاشی بحران: زراعت اور صنعتیں متاثر ہوں گی، جس سے معیشت کو شدید دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔
-
ماحولیاتی اثرات: دریائی پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے زمین کے کٹاؤ، نمکیات کا بڑھ جانا اور آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
-
تنازعات میں اضافہ: پانی کے بندوں اور ڈیموں پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
کیا معاہدہ یک طرفہ ختم کیا جا سکتا ہے؟
-
قانونی پہلو:
-
معاہدے کے آرٹیکل XII کے مطابق، اس میں تبدیلی یا خاتمے کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ یک طرفہ خاتمہ بین الاقوامی قوانین (جیسے ویانا کنونشن) کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔
-
بھارت کا موقف: بھارت پہلے بھی اس معاہدے پر سوالات کھڑا کر چکا ہے اور سندھ طاس معاہدے کو اپنے لیے "خطرپ” قرار دیتے ہوئے یک طرفہ کارروائی کی دھمکی دے چکا ہے مگر قانونی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت خاتمہ
-
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی سے وجود میں آیا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی براہ راست مداخلت کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہے تاہم اگر کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو مسئلہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) یا سلامتی کونسل تک جا سکتا ہے۔
-
معاہدے میں تنازعات کے حل کے لیے "طاس کمیشن” اور عالمی بینک کی ثالثی کا نظام موجود ہے۔
معاہدے کا مستقبل
-
بھارت نے 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد معاہدے پر "نظرثانی” کی بات پہے بھی کی تھی۔
-
پاکستان اس معاہدے کو اپنی بقاء کے لیے اہم سمجھتے ہوئے کسی بھی یک طرفہ عمل کو بین الاقوامی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک نازک توازن ہے۔ یک طرفہ خاتمہ نہ صرف علاقائی استحکام کو متاثر کرے گا بلکہ بین الاقوامی قانون کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم ہوگی۔
بھارت کے اس فیصلہ کے بعد کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا جاتا ہے پاکستان کے پاس کیا کیا آپشن موجود ہیں؟
بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی