زندگی کے سفر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ایک بزرگ ہستی سے ان کے مرید نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت فرمائیں کہ میں عملی زندگی میں کامیاب رہوں۔ جواب میں اس بزرگ ہستی نے فرمایا کہ ” بس یہ یاد رکھنا کہ زندگی کے سفر میں رب سے آپ کی کوئی شکایت نہ کرے” اس طرح تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران رہے گا۔
اس اللہ والے کی نصیحت کے تناظر میں ہمیں اپنا انفرادی اور اجتماعی جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ زندگی کے سفر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
کیا عملی زندگی میں ہمارا اجتماعی طرز عمل ایسا ہے کہ اپنوں اور غیروں کو ہم سے کوئی شکایت نہ ہو، ہم نے کسی کی حق تلفی نہ کی ہو، کسی کا دل نہ دکھایا ہو، ان سوالوں کے جواب میں اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہے تو آپ یقیناً کامیاب انسان ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو آپ کو اپنی دنیا اور دین دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔ بیشک حقوق اللہ کی بجا آوری کے حوالے سے اپ کتنے بھی مستعد اور مطمئن ہیں۔
حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کا اندازہ ہمیں تبھی ہو سکتا ہے جب ہم زندگی کے سفر میں گھروں کے اندر اور باہر اپنے طرز عمل کا بخوبی جائزہ لیں گے کہ ہم اپنوں اور غیروں کے ساتھ باہمی لین دین اور گفت و شنید سمیت دیگر معاملات زندگی کیسے طے کر رہے ہیں۔ ہمارے طرز عمل سے دوسروں کو کوئی شکوہ اور شکایت تو نہیں، حقوق العباد کے حوالے سے ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد تو نہیں پایا جاتا، کاروبار اور جائداد کی تقسیم میں ہم کسی یتیم، مسکین، بہن، بھائی یا بیٹی کی حق تلفی تو نہیں کر رہے، یاد رکھیں کہ اگر ایسا ہو گیا تو روز محشر حقوق اللہ کی بجا آوری سے بھی آپ کی جان نہیں چھوٹے گی خاص طور پر معاملات زندگی طے کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے کہ ” تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں”۔
مگر ہمارے ہاں یہ بہت بڑا سماجی المیہ ہے کہ عصر حاضر میں ایسے لوگ اکثریت میں پائے جاتے ہیں جنہیں اپنی ہاتھ پر کنٹرول حاصل ہے نہ زبان پر، ایسے لوگوں کی فری سٹائل گفتگو اور سینہ زوری معاشرے میں قدم قدم پر انتشار کا باعث بنتی ہے مگر وہ اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سادہ لوح اور امن پسند عوام کی زندگی برائیوں میں ملوث نہ ہونے کے باوجود اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ملک کا نکارہ اور بوسیدہ سسٹم ایسے مجبور اور مظلوم لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہے نہ سستا اور فوری انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کر سکتا ہے۔
اس ناکارہ سسٹم کی اصلاح نہ ہونے میں ارباب اختیار کی بے حسی اور نا اہلی دونوں شامل ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ معاشرہ ظلم اور ناانصافی سے بھر چکا ہے اور ریاست مظلوموں سے سوتیلی ماں سے سے بھی بد تر سلوک کر رہی ہے۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں، ستم رسیدہ لوگوں کی دعائیں ارباب اختیار کے سیکورٹی اداروں کے حصاروں میں گری بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرا کر بے ثمر واپس لوٹ رہی ہیں۔ عوام کی بے بسی اور با اختیار ارباب اختیار کی بے حسی تواتر سے روز افزوں ہے، ایسے میں نگاہ آسمان کی طرف اٹھا کر صرف یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اے ہمارے خالق و مالک ہم پر رحم فرما، ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ان حکمرانوں کے دل پھیر دے کہ وہ تیری مخلوق پر مہربان ہو جائیں، اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے مسائل در مسائل کی دلدل میں پھنسے عوام کے سروں پر دست شفقت رکھیں۔ ان پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے میں تاخیر نہ کریں تاکہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شکایات کرنے والوں کی بھیڑ نہ لگ جائے اور پھر سب اس کی گرفت میں نہ آجائیں۔