دیکھنا یہ ہے کہ

جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ عمر رواں میں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ایک اور یوم ولادت باسعادت پر خوشیاں منانے کے مواقع میسر آئے، وہاں توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ بحثیت مسلمان ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آمور و معاملات میں کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟
اس بات کا جائزہ لینا ہر مسلمان کے لئے از بس ضروری ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو خوش آئند ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے اور اگر ایسا نہیں تو گویا ہم نے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے دن اپنے اپنے مسلک کے مطابق روایتی انداز میں جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام و انعقاد کرتے ہوئے فلک شگاف نعرے تو لگا لئے، تقریریں کر لیں اور سن لیں، کھانے پکائے اور کھا لئے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اپنی عملی زندگیوں کو اسوہ حسنہ کے مطابق سنوارنے اور نکھارنے ایسی سوچ پیدا کی ہے کہ ہم با عمل مسلمان بن جائیں۔
نماز پنج گانہ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں، معاشرے میں باہمی معاملات اور رویوں میں ایسی تبدیلی لانے کا عہد کریں کہ ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہو گئے ہوں۔ ہم نےحقوق العباد کی اس انداز میں پاسداری شروع کر دی ہے کہ ہمارے ہمسائے ہمارے رویے سے خوش نظر آتے ہوں۔ کیا ہماری گفتگو میں ایسی مثبت تبدیلی آ گئی ہے کہ ہماری گفتگو میں گالم گلوچ شامل نہ ہو، کیا ہم نے خود کو حسد اور بغض ایسی برائیوں سے پاک کر لیا ہے، ہم نے عہد کر لیا ہے کہ آج سے کسی کا نام نہیں بگاڑیں گے، کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے، کسی کو دھوکہ نہیں دیں گے، کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے بڑوں کا احترام یقینی بنائیں گے اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں گے۔
کیا ہماری تاجر برادری نے مصمم عہد کر لیا ہے کہ وہ آج سے اشیائے خورد و نوش کا ذخیرہ نہیں کرے گی، پورا تولیں گے اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہیں کریں گے اور نہ ہی ناجائز منافع حاصل کریں گے، ہم سب ٹریفک قوانین کی پابندی کریں گے، رشوت دیں گے نہ لیں گے، اقربا پروری نہیں کریں گے، کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کریں گے۔ خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے، خاص طور پر انہیں جائیداد سے حصہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔
یاد رکھیں اگر ہمارے اندر یہ مثبت تبدیلیاں پیدا نہ ہوئیں تو گویا ہم نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یوم ولادت تو روائتی طور پر منا لیا مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے پر توجہ نہیں دی۔ یہ ہمارے قول و فعل میں پایا جانے والا وہ تضاد ہے جو ہمیں ایسا با عمل مسلمان نہیں بننے دیتا کہ ہم اپنے خالق و مالک کو پسند آ جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ارزانی اور سچا جزبہ عطا فرمائے۔