Site icon MASHRIQ URDU

خود احتسابی: وقت کی اہم ضرورت

خود احتسابی: وقت کی اہم ضرورت

تحریر: سید محسن رضا بخاری

خود احتسابی وقت کی اہم ضرورت مثبت سوچ اور حسن اخلاق ایسی خوبیاں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مہذب قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر ہماری عظمت رفتہ کو بحال کر سکتی ہیں۔ بصورت دیگر تو ہم بظاہر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود پچیس کروڑ سے زائد افرادی قوت والا بھیڑ بکریوں پر مشتمل ایسا ہجوم ہیں جو نہ صرف اپنی تخلیق کا مقصد بھول چکے ہیں بلکہ لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کو بھی پامال کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زندگی عمل سے بنتی ہے اگر علم ہونے کے باوجود عمل نہیں تو گویا جہالت کا طوق ہمارے گلے کا وہ پھندہ بن جانا یقینی ہے جو بالاخر جان لیوا ثابت ہوتا ہے، سو سماجی اصلاح پر توجہ دینا ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اگر اس ذمہ داری کو قبول نہ کیا گیا تو بحثیت قوم ہم ذہنی اور مالیاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑے رہیں گے، اس تناظر میں اصلاح پر توجہ نہ دی گئی تو ہماری نسلیں بھی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گی۔ خود ہی مثبت سوچ اور حسن اخلاق ایسی خوبیاں پیدا کرنے پر کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں صرف مصمم ارادوں اور نیک نیتی کی ضرب کاری ہی سے اس کی مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے، اس کے لیے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے بجائے خود احتسابی کی پہلی اینٹ رکھنے سے ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد استوار ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگلا قدم ملت کے ہر بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے کہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم ہی ترقی کا پہلا زینہ ہے.

اسی لیے ہمیں اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے متعدد احادیث تواتر سے پڑھنے کو ملتی ہیں کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ علم حاصل کرو محد سے لے کر لحد تک اور تعلیم بھی ایسی جو بچوں میں تربیت کے جوہر کو اجاگر کرے کہ محض ڈگریاں حاصل کرنا صرف اعزاز ٹھہرے گا، جو کسی ڈگری ہولڈر کے لیے باعث عزت تو ہو سکتا ہے دوسروں کے لیے نافع نہیں ہو سکتا۔ علم کے ساتھ عمل ہوگا تو عقل اپنی معراج پر پہنچے گی اور فکر کے در واہ ہوں گے ہر ایک کو چھوٹے بڑے کی پہچان ہوگی۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خیال خود بخود آنا شروع ہو جائے گا کسی کی حق تلفی ہوگی, نہ کوئی دوسرا آپ کے ہاتھ اور زبان سے بیزار ہوگا، عمل بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف توجہ بڑھے گی تو متقی اور پرہیزگار معاشرہ کی بنیادیں مستحکم ہوں گی۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو ہمیں ایک دوسرے پر ڈالنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں قبول کرنا ہوگی۔ گھروں میں والدین کو چاہیے کہ جہاں وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں وہیں ان کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ درسگاہوں میں جہاں اساتذہ کرام بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں وہاں ان میں جوہر تربیت پیدا کرنے پر بھی توجہ دیں تاکہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد نوجوان نسل کو چھوٹے بڑے کی تمیز ہو، وہ بچوں سے پیار کریں اور بڑوں کا احترام یقینی بنائیں۔ اپنے حسن اخلاق پر توجہ دیں کہ اس صفت کی اہمیت کا اندازہ صرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اسی ایک حدیث مبارکہ سے بخوبی بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ”میں تو مبعوث ہی اسی لیے کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کو بلند کر دوں” مگر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے باوجود ہمارا اس طرف توجہ نہ دینا افسوسناک ہے۔

پاکستان ہمارے پاس اللہ تعالی کی نعمت ہے، اس نعمت پر سجدہ شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اس کی بقا اور استحکام پر توجہ اسی وقت دے سکیں گے جب ہم با عمل شہری ہوں گے، اس حوالے سے مثبت نتائج مرتب ہونا تبھی ممکن ہے، جب ہمارا نصاب تعلیم یکساں اور وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا سکھاتا ہو، نو نہالوں کو تعلیم مشن سمجھ کر دی جائے اسے تجارت کا ذریعہ نہ بنایا جائے، ارباب اختیار اس تناظر میں احکامات الہیہ، احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور فرمودات قائد اعظم کو اپنے لیے مرکز نگاہ عمل بنائیں ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سال ہا سال سے ایسے خدشات روز افزوں ہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم طبقاتی معاشرہ پیدا کر رہا ہے، جب معاشرہ ہی طبقاتی ہوگا تو قوم متحد کیسے ہو سکتی ہے۔ اس پر مختلف فورموں پر بحث جاری ہے جو اسی صورت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے کہ اس میں شامل لوگوں کے ارادے نیک اور نیت صاف ہو، وہ لوگ تہہ دل سے وطن عزیز کی سلامتی کے متمنی ہوں اور اپنی سوچ و فکر اور عمل کے حوالے سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے ہوں۔ آئیں ملت کا ہر فرد ان خطوط پر سوچے اور سمجھے کہ وطن عزیز کی نظریاتی اورجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اس حوالے سے اللہ تعالی ہمارا مددگار ہو۔ آمین یا رب العالمین

توجہ طلب زمینی حقائق

 

 

Exit mobile version