”خواجہ آفتاب اور اُن کی تخلیقات “
گزشتہ روز 10 فروری 2025 ء بروز پیر ممتاز صحافی و افسانہ نگار خواجہ آفتاب حسن کی تیسری کتاب ” خالی سڑک ” کی تقریب پزیرائی سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف کی زیر صدارت پلاک ادبی بٹھک الحمراء میں منعقد ہوئی۔ جس میں پاکستان کے معروف لیجنڈ اداکار راشد محمود سمیت شہر بھر کے نامور صحافیوں و دانشوروں، جن میں پروین سجل، گل نوخیز اختر، اشرف سہیل، حفیظ الرحمن مغل، تمثیلہ چشتی، عمران شیخ، اقبال بخاری، امجد سلیم منہاس، افتخار ملک اور دیگر نے شرکت کی۔ یہ تقریب لاہور آرٹس کونسل اور بزم انجم رومانی پاکستان کے اشتراک سے منعقد کی گئی۔ یہ تقریب انجم رومانی کے فرزند سرود انجم کی سرپرستی میں ہوئی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایم ابرار نے ادا کئے۔ تقریب کے اختمام پر خواجہ آفتاب حسن کی صحافتی و ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ”نجمِ ادب و صحافت ایوارڈ ” سے نوازا گیا۔
خواجہ آفتاب حسن سے میری شناسائی آج سے قریباً بیس برس قبل روزنامہ ”اساس“ کے آفس میں ہوئی۔پرکشش چہرے والا خوبرو یہ کشمیری نوجوان جو اخلاقی اعتبارسے بھی مجھے دوسروں سے کچھ الگ محسوس ہوا، جلد ہی دوستی کے مضبوط بندھن میں بندھ گیا۔عمر اور تجربے میں سینئر ہونے کے باعث خواجہ صاحب نہایت ادب و احترام اور محتاط انداز میں گفتگو کرتے ، غالباً یہ اُن کی تربیت کا اثر ہی تھا وگرنہ آج کے اس دور پُرفتن میں کون کسی کا احترام کرتا ہے ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہماری یہ دوستی بے تکلفی میں تبدیل ہوتی گئی لیکن اس بے تکلفی میں بھی انہوں نے ادب کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دیا یہی وجہ تھی کہ ہماری دوستی مضبوط بنیادوں پر استوار تا حال قائم ہے۔
خواجہ صاحب عرصہء دراز سے اخباری خبروں تک محدود رہے۔ سب ایڈیٹر ،سینئرسب ایڈیٹر اور پھر نیوز ایڈیٹر ،چیف نیوز ایڈیٹر۔ "روزنامہ دن“ میں بھی بہت بہتر طور پر انہوں نے اپنے فرائض انجام دیے ۔انہی دنوں میں بھی وہاں بطور کالم نگار، فیچر رائٹر اور مختلف موضوعات پر تحقیق کا کام کر رہا تھا لیکن میں نے اتنے عرصہ میں خواجہ صاحب کو کبھی کالم یا فیچر وغیرہ لکھتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ان کا کوئی مضمون میری نظروں سے گذرا لہٰذا یہی ایک گمان تھا کہ خواجہ صاحب کا شعبہ نیوز ہی ہے جس میں وہ خاصی مہارت رکھتے ہیں ۔لیکن پھر اس دن میری حیرت میں خاصا اضافہ ہوا جب خواجہ صاحب اپنی کتاب”جگ بیتیاں“ کا مسودہ میرے پاس لائے کہ جناب اس کتاب پر چند سطور لکھ دیں۔میں نے پوچھا کس کی کتاب ہے ؟ کہنے لگے میں نے لکھی ہے ۔ میری حیرت بھری نظریں کچھ وقت کے لیے اُن کے سرخ وسفید چہرے پر جم گئیں ۔ اس لیے کہ اتنے سالوں میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں تھا کہ اُن کا کوئی مضمون میری نظروں سے گذرا ہو پھر اچانک اور ایک دم پوری کتاب! حیرت تو ہو گی ہی۔ بہر کیف ! میں نے یہ کہہ کر مسودہ رکھ لیا کہ پڑھنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکوں گا اور یہ فقرہ اس لیے میری زبان سے ادا ہوا کہ مجھے قطعی یقین نہیں تھا کہ خواجہ صاحب اردو ادب پر بھی کوئی گرفت رکھتے ہیں ۔ لیکن پھر جوں جوں میں کتاب کا مسودہ پڑھتا گیا توں توں میری حیرت میں اضافہ بھی ہوتا گیا ۔ ناقابل یقین حد تک تحریر اس قدر جامع، پختہ اور اسلوب سے پُر تھی جس کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا تھا چناں چہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ رات ایک بجے تک میں پوری کتاب پڑھ چکا تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ مجھے کسی قسم کی تھکاوٹ کا کوئی احساس تک نہ ہوا حالاں کہ اُن دنوں میری طبیعت بھی کچھ ناساز تھی ۔
تحریر میں اگر چاشنی ہو، روانی ہو، لفاظی ہو، اسلوب ہو، موضوع دلچسپ ہو اور اس کی دلچسپی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والی ہر سطر نے خود کو برقرار رکھا ہو تو یقینا قاری ان موضوعات کی بھول بھلیوں میں نہ صرف کھو جاتا ہے بل کہ اُس دنیا میں جا نکلتا ہے جس کا وہ مطالعہ کر رہا ہو۔ خواجہ آفتاب حسن کی شخصیت کا یہ ایک نیا اور الگ روپ تھا جو میرے سامنے تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب کی ذات کی گہرائی میں چھپی و دبی ہوئی ادبی خوبیاں اب ظاہر ہونے لگیں اور اسی اثناء میں ان کی ایک اور کتاب”فنکاریاں“ منظرعام پر آگئی۔ یہ بھی اپنی طرز کی ایک الگ کتاب تھی۔ موضوع یا عنوان کے اعتبار سے مزاحیہ دکھائی دیتی تھی لیکن خواجہ صاحب نے ہر کردار کو نہایت ادبی مہارت کے ساتھ جس طرح اُجاگر کیا اُس نے ان کرداروں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ دونوں کتب دو مختلف زاویوں پر مشتمل تھیں جو اُن کی خداداد صلاحیتوں کونمایاں کر رہی تھیں۔ خواجہ آفتاب حسن خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ خوش طبعی و بذلہ سنجی میں بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں اور ظرافت توان کی فطرت میں شامل ہے ہی ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مزاح نگاری میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ۔ ان کی پہلی کتاب جس کا تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں کر چکا ہوں، انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ اپنے چند دوستوں کا نقشہ جس ظرافت آمیزی کے ساتھ کھینچا ہے،
اُس میں مجھے معروف طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی جھلک نمایاں دکھائی دی۔ یوسفی صاحب نے اُس دور کے معروف مزاح وافسانہ نگار رشید احمد صدیقی سے متاثر ہو کر مزاح نگاری کا آغاز کیا اور شہرت پائی۔ ان کے مزاحیہ مضامین کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ ایک ”چراغ تلے اندھیرا“ دوسرا ”خاکم بدہن “ اور تیسرا ”زرگشت“ جن میں سے میں ”چراغ تلے اندھیرا“ کا مطالعہ کر چکا تھا اور جب خواجہ آفتاب کی کتاب ”جگ بیتیاں“ کے چند گوشے میری نگاہ سے گذرے تو مجھے اُن کی تحریر میں علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل مشتاق احمد یوسفی صاحب کا رنگ دکھائی دیا۔ یہاں پر ایک بات اور بھی عیاں ھوتی ھے کہ ذہن کی وسعتوں کا ھونا کسی ڈگری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
خواجہ آفتاب حسن کی تحاریر میں مجھے ہر مقام پر ایک جدت دکھائی دی اور جو سب سے بڑی خوبی میں نے اُن کی تحریروں میں محسوس کی وہ اُن کا جداگانہ انداز تحریر ہے یعنی تینوں کتب میں انہوں نے جن الفاظ کو ترتیب دیا وہ سب کے سب الگ و منفرد اسالیب کے ساتھ ہیں اور یہ وہ طرز طریق ہے جو میں نے مشتاق احمد یوسفی کی تحاریر میں پایا۔ افسانہ نگاری کی طرف رجوع کیا تو خواجہ صاحب نے اس میں بھی کمال کر دکھایا۔ تخیلات و تصورات کی دنیا کو حقائق کی دنیا میں تبدیل کر دینے کو یقینا” فن جادوگری ہی کہا جاسکتا ہے جسے خواجہ آفتاب حسن نے باکمال انداز میں اپنی تیسری کتاب”خالی سڑک “ کے نام سے ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس افسانوی مجموعے میں پہلا افسانہ ”موت کا فرشتہ “ کی آخری سطور نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جسم یک بارگی لرزا اور آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔ تحریرکی یہی وہ چاشنی اور خوبصورتی ہے کہ قاری گر مطالعہ کے میدان میں اترے تو پھر دیوانہ وار دوڑتا ہی چلا جائے یہاں تک کہ منزل پر پہنچ کر دم لے۔ بالکل ایسے ہی میں نے یہ کتاب ایک سانس میں پڑھ ڈالی۔
خواجہ آفتاب حسن کے ان بائیس افسانوں کے اس مجموعہ ”خالی سڑک“ کو افسانوی دنیا کے فلک پر کرنیں بکھیرتے ہوئے صبح آفتاب سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اب افسانہ ”شمشان گھاٹ “ ہی کو لے لیجیے، اس کا آغاز ہی ایسا سحرانگیز ہے کہ قاری چلتے چلتے اس حقیقی ماحول میں جا پہنچتا ہے حالاں کہ یہ حکایت وطن عزیز کے کسی شہر، قصبہ و دیہات سے متعلق نہیں کہ انہوں نے اس ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو بل کہ یہ بھارت کے جدید ترقی یافتہ شہر ممبئی سے ملحقہ ایک بستی ہے جسے بیان کرنا یقینا” حیران کن ہے اس لیے کہ وہ کبھی بھارت یا ممبئی گئے ہی نہیں لہٰذا یہ چیز نہ صرف ان کے گہرے مشاہدے کو ظاہر کرتی ہے بل کہ ایک بیدار مغز اور حساس طبیعت ہونے کا پتا بھی دیتی ہے۔ لکھتے ھیں ! "ممبئی خوابوں کا شہر، آج جہاں چہار سو موت رقصاں ھے۔ وہ شہر جو کبھی سویا نہیں، اب وھاں ابدی نیند کی وحشت، نیم مردہ جسموں کی ادھ کھلی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رھی ھے۔ کروڑوں انسانوں کے اس سمندر میں زندگی اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پاؤں مار رھی ھے مگر دور دور تک کوئی سہارا، کوئی مسیحا، کوئی بھگوان نہیں جو ہر روز کرب میں مبتلا ہزاروں دم توڑتے انسانوں کے لئے زندگی نہ سہی، کم از کم موت ھی آسان کر دے۔ دھاروی، شہر کے مغربی حصے میں واقع ایشیا کی سب سے بڑی کچی بستی، فضاء سے دیکھیں تو لگتا ھے جیسے آسمان کو چھوتی عمارتوں کے درمیان ٹین کی چھتوں کا نیم دائرہ کھینچا گیا ھو۔ اس آبادی کی کئی گلیاں اس قدر تنگ و تاریک ھیں کہ وھاں دھوپ کو بھی راستہ نہیں ملتا اور اگر کوئی مر جاۓ تو ” رام رام ست ھے” کی آواز ایک گلی سے اور ارتھی دوسری گلی سے اٹھتی ھے۔ بارش ھو تو ٹین کی چھتیں سرگم بجاتی محسوس ھوتی ھیں۔ایسے میں کریا کرم کے لئے کسی کی لاش کو شمشان گھاٹ تک پہنچانا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ھے لیکن اب تو ہر روز کئی لاشیں اس بستی سے اٹھائی جاتی ھیں۔ یوں لگتا ھے جیسے لاشیں زیادہ اور انہیں شمشان گھاٹ تک پہنچانے والے کندھے کم ھوتے جا رھے ھیں ” خواجہ صاحب نے بلاشبہ انتہائی باکمال طرز پر اس پورے ماحول کی منظر کشی کی ھے جس کی داد دئیے بغیر نہیں رھا جا سکتا اس لئے کہ بھارت کے متعدد شہروں سے ملحقہ ایسی بستیوں کے کئی مناظر وھاں رہ کر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ھوں۔
اسی طرح خواجہ صاحب نے ”مٹی کے قرض“ کے عنوان سے جو افسانہ لکھا ہے یقینا انہوں نے اپنے ان جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے جو کسی بھی محب وطن یا سرفروش کے خیالات و جذبات ہوتے ہیں۔لہٰذا انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں ان غازیوں ،مجاہدوں اور شہیدوں کی ترجمانی کی ہے جنہوں نے اپنا تن من دھن بڑی آن ،بان اور شان کے ساتھ وطن عزیز پر قربان کر دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انہی مجاہدوں کے بارے میں فرمایا کہ سرحدوں پر جاگنے والی آنکھیں اسے نہایت پسند ہیں۔سورة العادیات میں اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ایک سے آیت نمبر پانچ تک باقاعدہ قسم کھائی جہاد کے میدانوں میں دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی کہ ”قسم اُن کی جو دوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی ،پھر پتھر سے آگ نکالتے ہیں سُم مار کر، پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں ،پھر اُس وقت غبار اُڑاتے ہیں،پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب نے فقط دنیا ہی کے حالات و واقعات کو لفظوں میں نہیں پرویا بل کہ دینی اور روحانی فکر کو بھی حقائق کے رنگوں میں رنگ دیا۔ خواجہ صاحب اس ”خالی سڑک“ پر اپنے ان افسانوں کے ساتھ ہر اعتبارسے نہایت دل کش و پُر اثر ماحول میں محو سفر دکھائی دیے۔ ایک مقولہ، مثل یا کہاوت جو موقع محل کو دیکھتے ھوۓ کہی جاتی ھے کہ ”دیگ کا ایک دانہ چکھنے سے پوری دیگ کا حال معلوم ہو جاتا ہے“ چناں چہ اس مثل یا کہاوت کے مصداق ان چند ایک افسانوں کا تذکرہ ہی درحقیقت پوری کتاب کا حال احوال بتا دینے کے لیے کافی ہے۔ اُمید بھی ہے اور دعا بھی کہ خواجہ صاحب کی کوئی نئی تصنیف بہت جلد ہمارے ہاتھوں میں ہوگی جو ہمارے علم وفہم میں اضافہ کاباعث بنے گی ۔