Site icon MASHRIQ URDU

‘’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘ سے ’’امرتسر کی بلو تک‘‘

‘’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘ سے ’’امرتسر کی بلو تک‘‘تنہا کر گئی

فی زمانہ ہر شخص صاحب کتاب بننا چاہتا ہے۔ بھلے مبتدی ہو لیکن خواہش ہوتی ہے کہ شعری مجموعہ یا نثری تخلیق منظر عام پر آئے خواہ اس کیلئے کتنی خطیر رقم ہی کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔ پیسہ تو کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں، اپنا نہیں تو باپ کا اڑاؤ۔ کتاب چھپواؤ اور پھر دوستوں عزیز و اقارب و دیگر احباب میں تقسیم کرو تاکہ سب کو آپ کے شاعر یا ادیب ہونے کا علم اور یقین ہوجائے۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض ہو۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ پلے روکڑا ہے تو شوق پورا کیجئے لیکن اس میں کچھ  قباحتیں بھی ہیں۔ ہر چیز کو نظرانداز کیجئے  صرف ایک بات پر غور کیجئے کہ جسطرح کسی بنک سے خطیر رقم نکلوانے والے کو بے حد محتاط ہونا پڑتا ہے لیکن اسکی حد سے زیادہ احتیاط ہی اسکی بربادی کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ واردات کرنے والے عموماً بنکوں کی برانچوں کے آس پاس ہی گھومتے پائے جاتے ہیں جو کبھی تو شکار کو بنک سے نکلتے ہی اچک لیتے ہیں اور کبھی قدرے صبر کامظاہرہ کرتےہوئے اس کا پیچھا کرتےہیں اور کسی ویرانے میں جالیتے ہیں۔ یعنی جس غریب کی جیب بھاری نظر آئی وہ پھر ان سے بچ نہیں سکتا بالکل اسی طرح مارکیٹ میں سنجیدہ اور پیشہ ور پبلشرز کے ساتھ ساتھ کچھ موقع پرست ناشرین بھی کندھے پر رومال ڈالے پھرتے ہیں اور جو سنجیدہ اور معزز ناشرین کی آڑ میں چھپے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچپن میں والد صاحب کے ساتھ ساتھ رہنے کایہ فائدہ ضرور ہوا کہ ایک سےایک بڑے اور نامور پبلشر سے ملاقات ہوئی، لاہور میں فیروز سنز پبلشرز، قومی کتب خانہ، ناشرین اور بہت سے اورجبکہ راولپنڈی میں زمیندار بک ڈپو وغیرہ ۔ والد صاحب قومی کتب خانہ والوں کے رسالے پندرہ روزہ ’’ھدایت‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے اور اسی دوران اور اس کے بعد انکی تقریباً پچاس کے قریب کتابیں قومی کتب خانہ سے شائع ہوئیں لیکن ادارے نے پیشہ ورانہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کتاب کے شائع ہونے پر رائلٹی پیشگی نقد ادا کی اور کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ ہمارے پاس ملازم ہیں سو ہم رائلٹی نہیں دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور سے راولپنڈی منتقل ہونے سے قبل والد صاحب کا شعری مجموعہ ’’دست و داماں‘‘ ناشرین پیسہ اخبار لاہور نے شائع کیا اور اس کی رائلٹی اور اعزازی کاپیوں کا بنڈل پہنچانے ناشر صاحب بہ نفس نفیس راولپنڈی آئے اور صرف یہی نہیں بلکہ میرے لئے بچوں کی کتابوں کا ایک سیٹ بھی لائے۔
مجھے یہ پذیرائی دیکھ کر بیحد اشتیاق ہوتا کہ میں بھی مصنف بنوں اور جب بھی والد محترم الطاف پرواز سے اس خواہش کا اظہار کرتا تو انکا ایک ہی جواب ہوتا کہ دو باتوں کا خیال رکھو، پہلے تو خوب لکھو اسے بار بار پڑھو اور بار بار درست کرو اور جب مطمئن ہو جاؤ تواگلی تحریر لکھو اور یہی سلوک اس کے ساتھ روا رکھو یہاں تک کہ تمہاری تحریروں میں پختگی آجائے۔ کوشش کرو کہ کسی سے اصلاح لے لولیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مجھے دکھا لیا کرو۔ دوسری بات جب تمہارا معاشرے کا مشاہدہ بھرپور ہو جائے تو پھر کتاب چھپوانے کی سوچنا۔ میں نے کہا کہ میری کتابیں کون شائع کرے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا لکھا ہوا پڑھنے کے قابل ہوا تو کوئی بھی شائع کرنے میں دلچسپی ظاہر کریگا۔
نوے کی دہائی میں میں نے کتاب شائع کروانے کیلئے پر تولنے شروع کئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب میرے کورس میٹ محترم صولت رضا کی کتاب کاکولیات کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی اور جسے دیکھ کر رشک آتا تھا۔ کافی مواد اکٹھا بھی ہو چکا تھا لیکن کچھ ذاتی مسائل آڑے آرہے تھے۔ دوسری دفعہ خیال تب آیا جب میرا کالم ’’پانچواں کالم‘‘ مختلف روزناموں کی زینت بن رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر معاشی مسائل اور زوجہ کی علالت باعث تاخیر بنی۔ بالآخرمیری پہلی کتاب کی اشاعت کی وجہ بھی میری رفیق زندگی کی رحلت بنی جس کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے میں نے ’’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘ لکھی۔ اس وقت تک میدان ادب میں مجھے عرصہ پینتس برس ہو چکا تھا۔ پبلشرز کیلئے میرے ذہن میں سنگ میل پبلشرز لاہور کا نام ذہن میں آیا۔ اشاعتی دنیا میں ایک بڑا نام ہے لیکن میری افضال صاحب سے کوئی شناسائی نہ تھی۔ ادھر ادھر سے پوچھ کر نمبر تلاش کیا اور انہیں فون کردیا۔ انہوں نے بہت محبت سے بات کی، میری کتاب کا مرکزی خیال سنا اور ادبی دنیا میں میرا پس منظر جانچ کر مجھے کہا کہ کتاب کا ان پیج مسودہ بھجوا دوں جو میں نے ارسال کر دیا۔ بہت سے دوستوں کی آرا کے برخلاف افضال صاحب نے صرف پانچ ماہ میں میری کتاب شائع کر دی۔ انکی مہربانی تھی اور میری پہلی کتاب تھی سو مجھے رائلٹی کی بات کرنا اچھا نہ لگا۔ البتہ انہوں نے مجھے سو اعزازی کاپیاں ضرورعنایت کیں۔ بعد میں بھی میں ان سے دو تین سو جلدیں خرید چکا ہوں جو انہوں نے مجھے خصوصی رعائت سے عنایت کیں۔
اگلی دو کتابیں ’’ڈھاکہ میں آؤں گا‘‘ اور ’’ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘‘ کیلئے مجھے میری عزیز دوست صدف مرزا نے بک کارنر شو روم جہلم کا راستہ دکھایا جہاں بعد میں علم ہوا کہ ناشرین میرے ایک پرانے دوست شاھد حمید صاحب کے صاحبزادگان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے نہایت محبت سے سے میری کتابیں شائع کیں لیکن کچھ معاملات پر ہمارا اختلاف رہا اور اختلاف ہونا کوئی بری بات نہیں اگر اصولوں کی حد تک رہے اور یہاں بھی اصولی اختلاف تھا۔ کتابوں کی اشاعت کے دوران بعض دوستوں نے کمرشل اور نان کمرشل مصنف ہونے کا شوشہ بھی چھوڑا جو میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا کیونکہ زندگی میں نامور شعرأ و ادبأ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے کے باوجود آج تک کبھی کمرشل نان کمرشل والی اصطلاح نہیں سنی تھی۔ مصنف کا کام ہے لکھنا، پبلشرز کا کام ہے شائع کرنا اوریہ کام قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے کہ کس مصنف کو پڑھنا ہے اور کس کو نہیں سو یاد رکھا جائے کہ مصنف کی محنت کا ناشر کے گرمیوں کے شمالی علاقوں کے دورے کے خرچے سی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک قاری کے علاوہ کوئی اور قطعی اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر کوئی بھی پبلشرذاتی تعلقات کی بنا پر کسی بھی رائٹر کو رائلٹی کا چیک دینے کے قابل سمجھے اور دوسروں کے مقابلے میں اس کی پذیرائی زیادہ کرے تو وہ اس رحمدل پبلشر کی صوابدید پر ہے لیکن وہ باقی رائٹرز کو نان کمرشل کا ٹیگ لگا کر رد نہیں سکتا۔ اب تک مجھے یہ سمجھ آچکی تھی کہ بیشتر پبلشرز چند سکہ بند (مرحوم) ناموں کی تحریروں اور اپنے جاننے والے (زندہ) مصنفوں کو ہی لائق رائلٹی سمجھتے ہیں جبکہ باقی مصنفوں کیلئے ان کی کتابوں کا بلا خرچ شائع ہو جانا ہی انکے لئے بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔
میری کتابوں ’’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘ اور ’’امرتسر کی بلو‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میسرزمیٹر لنک دہلی انڈیا نے بھی شائع کئے ہیں ۔ نہایت دیدہ زیب اور قابل توجہ۔ میٹر لنک کے مہتمم قاضی ذکریا صاحب ایک نہایت شفیق اور نفیس انسان ہیں جو دل موہ لینے والی گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم بھی ون مین آرمی کی حیثیت سے ادب کیخدمت کر رہے ہیں۔ میری کتاب ’’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘ کا دوسرا پاکستانی ایڈیشن بھی انہی کے ہاں زیر طباعت ہے۔ بیحد محبت کرنے والے انسان ہیں اور خاموشی سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان دو افراد کا ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کاروبار اور رائلٹی ہی سب کچھ نہیں ہوتی، اصول اور کردار بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ آپ اگر پراثر لکھنے والے ہیں تو پاکستان میں قلم فاؤنڈیشن اور انڈیا میں میٹر لنک کو موقع دے کر دیکھئے۔

تنہا کر گئی

میں آسٹریلیا میں تھا اور اپنی کتاب ’’امرتسر کی بلو‘‘ پر کام کر رہا تھا ۔ فیس بک پر کسی دوست سے اس کا تذکرہ ہو رہا توایک پبلشر نے اس بات کو فیس بک سے اچک لیا اور مجھے کہا کہ میں آپکی کتاب شائع کروں گا۔ بہت سے زبانی وعدے وعید کرنے اور مشترکہ حوالے دینے کے بعد  موصوف نے کہا کہ مسودہ مجھے بھجوا دیں پھر میں جانوں اور میرا کام۔ اس وقت تک ان کی باتوں سے یہی لگا کہ موصوف چونکہ لاھوریئے ہیں سو وعدے کے پکے رہیں گے۔ باتوں میں میری مصوری کا ذکر بھی ہو چکا تھا سوجب مسودہ انکے پاس چلا گیا تو کہنے لگے آپ ٹائٹل بھی اپنی مرضی کا بنائیں کیونکہ ناول کا مرکزی خیال آپکے ذہن میں ہے۔ جب انکی یہ بھی بات تسلیم کر لی تو اب جو انکے بلند بانگ دعوے تھے وہ رفتہ رفتہ دم توڑنے لگے یا ان میں ردو بدل شروع ہو گیا۔ پہلے رائلٹی سے مکرے کہ دوسرے ایڈیشن میں دوں گا پھر زیادہ سے زیادہ جلدیں خریدنے پر اصرار کہ آپ چار سو کاپیاں خریدیں میرا کہنا تھا کہ اگر چار سوخریدنی ہیں تو خود ہی کیوں نہ چھپوا لوں۔ آپکا ادارہ کوئی ایسا نام والا بھی نہیں کہ مجھے اس کی ضرورت ہو۔ بہرحال جتنی میری ضرورت تھی وہ میں نے خرید لیں۔ اس وقت تک میں پاکستان پہنچ چکا تھا اب موصوف کنٹریکٹ کے مطابق اس کتاب کے دو فنکشن کرانے سے کترانے لگے۔ کبھی سردیوں کا بہانہ کبھی رمضان کا عذر۔ اس اثنا میں جس دوست سے بھی بات ہو اس کا یہی کہنا تھا کہ عکس پبلشرز والے بالکل نان پروفیشنل اور وعدہ خلاف ہیں۔ قارئین نے فیس بک پر ان موصوف کو اکھڑ اور بدتمیز بھی کہا لیکن میں انکا خواہ مخواہ کا وکیل بنا رہا تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہوگیا موصوف واقعی میں موقع پرست، چلتر اور بد عہد ہیں۔ انکا کوئی تعلیمی یا ادبی حوالہ نہیں۔ یہ پیسہ کمانے کے چکر میں ہیں اور انکی نظر دوسرے بندے کی جیب پر ہوتی ہے۔ میں نے آج تک سنگ میل یا بک کارنر سے اپنی شائع شدہ کتابیں جب بھی اور جتنی بھی خریدیں انہوں نے ساٹھ فیصد کا سپیشل ڈسکاؤنٹ دیا لیکن محترم محمد فہد نے صرف چند ہزار کے اضافی منافع کیلئے کتاب بیچی تو پندرہ سو میں لیکن مجھ سے اینٹھنے کے چکر میں اس کی ٹیگ پرائس دوہزار لکھی اور پھر مجھے پچاس فیصد (ساٹھ نہیں) پر فراہم کی۔ آپ ان سے عکس پبلشرز کی ذہنیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب اعزازی کاپیوں کی بات ہوئی تو تیس کی بجائے مجھے بیس جلدیں تھما دیں اور دس کتابیں گول کرگئے۔ اللہ کا بیحد کرم ہے کہ ان موصوف کا نمک تو کیا کھانا میں آج تک ان سے ملا تک نہیں اور ان کی ان حرکتوں کے بعد ملنے کی کوئی خواہش بھی نہیں رہی۔ میرا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن سوچا کہ جو کتابیں چھپوانے کے شوقین ہیں وہ بھلے پاکستان کے کسی بھی پبلشر سے کتاب شائع کروا لیں لیکن موصوف محمد فہد کے نزدیک نہ پھٹکیں۔ اگر آپ ان کے قابو میں آگئے اور ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوگئے تو نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہونگے۔
‘’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے
سہیل پرواز
ھیوسٹن، ٹیکساس

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

‘’جو تنہا کر گئی مجھ کو‘‘

Exit mobile version