ججوں کی جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کرنے کی درخواست۔ خط لکھنے والوں میں جسٹس منصور، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اور جسٹس اطہر شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 10 فروری کو شیڈول ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا ایک جج 15ویں نمبر پر تھا۔ اسلام آباد تبادلے کے بعد سپریم کورٹ کیلئے کیسے اہل ہوگیا؟ آئینی پر طور پر مشکوک تبادلے کے بعد ایک جج کیسے سپریم کورٹ کیلئے اہل ہوسکتا ہے؟ اس پر قانون واضح ہے۔ آئینی ترمیم کیس کے فیصلے تک نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روکا جائے۔ فل کورٹ والی درخواستوں پر فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ ججز کی سنیارٹی طے ہونے تک بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس موخر کیا جائے۔ 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے۔ نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہوگی یہ تنازع بنے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز ٹرانسفر ہوئے
آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ حلف کے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی۔ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجے میں بننے والا آئینی بینچ سن رہا ہے۔ آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے۔
کہا گیا کہ پہلے بھی آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آئینی بینچ میں بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا۔ نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جلد بازی میں اجلاس بلایا گیا۔ آئینی ترمیم کیس زیر سماعت ہے۔ فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہوگا۔ آئینی بینچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہونگے؟ نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بینچ فل کورٹ نہیں۔ موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے۔ عوام کو موجودہ حالات میں ”کورٹ پیکنگ” کا تاثر مل رہا ہے۔ جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈے اور مفاد کے لیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟ جاننا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟