توجہ طلب زمینی حقائق
سید محسن رضا بخاری
بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر جاری مشترکہ اعلامیہ کی عالمی سطح پر نشر و اشاعت کے بعد پاکستان کے ارباب اختیار کے لئے کھلی دعوت فکر ہے کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے غور و فکر کریں۔ مودی تو رہے ایک طرف ٹرمپ کے تیور پورے عالم اسلام خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے خاصے بگڑے نظر آتے ہیں یہ وہی ٹرمپ ہیں جن کے پچھلے دور حکومت میں جب مودی امریکہ یاترا پر گئے تو 75 سال سے متنازعہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت سرکار نے امریکہ کی آشیر باد سے اپنے ہی ملک کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اور اب ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت
میں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا ، ٹرمپ نے بھارت کو ایف 35 لڑاکا طیارے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس میں رتی بھر شک نہیں کہ یہ تینوں (امریکہ، بھارت اور اسرائیل) پاکستان میں سیاسی ابتری پھیلانے اور ہماری عسکری قوت کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر وہ وقت کب آئے گا جب مریکہ کو وہ سب یاد دلایا جائے گا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امریکہ کے مفادات کی کب سے اور کیسے حالات کے پل صراط سے گزر کر حفاظت کر رہا ہے۔ جب کہ امریکہ بھارت سے دوستی کی پینگیں چڑھاتے وقت ہمارے یہ سب احسان بھول جاتا ہے۔ امریکہ خاص طور پر یہ کیوں بھول گیا ہے کہ چند سال قبل جب وہ ذلت آمیز شکست کے بعد افغانستان سے بھاگ رہا تھا تو اسے محفوظ راستہ پاکستان نے دیا تھا۔ بات بات پر پاکستان کو دھمکیاں دینے والے امریکہ کو یہ یاددہانی کرانی ضروری ہے کہ اگر اس نے مستقبل میں بھی بھارت کے ایماء پر یا تحریک پر جنوبی ایشیا میں ایسی کوئی حرکت کی تو ذلت اور رسوائی پھر اس کا مقدر بن جائے گی۔ پاکستان کو امریکہ پر یہ واضح کر دینا چاہئے کہ وہ تجارت کے لئے بھارت سے معاہدے ضرور کرے مگر خطے میں پاکستان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ اس پس منظر میں دانش ور طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان اگر اقتصادی طور پر مستحکم ہو تو پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی منافقانہ پالیسیاں غیر موثر ہوسکتی ہیں مگر یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ نہ ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں نہ ہمارے ملک سے سیاسی انتشار ختم ہوتا ہے اور نہ ہی ملک ترقی کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ہم آئے روز کشکول اٹھائے عالمی مالیاتی اداروں کے پاؤں پڑتے نظر آتے ہیں اس سے بڑھ کر ہمارے لئے عبرت اور ذلت کا کیا مقام ہو سکتا ہے کہ اب آئی ایم ایف کے نمائندے ہمارے قومی اداروں کے سربراہوں کو ہدایات دینے آتے ہیں جو ہماری خود مختاری پر بھی ضرب کاری ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پاکستان کو عزت اور وقار کے ساتھ دنیا کے نقشے پر قائم رہنا ہے تو ہمیں نہ صرف قرضوں کی معیشت سے جان چھڑانا ہوگی بلکہ کشکول کو بھی توڑنا ہوگا۔ پاکستان میں دولت اور وسائل کمی ہے نہ افرادی قوت کی کمی ہے تو صرف محب وطن قیادت کی جبکہ ملک سے مخلصانہ محبت ہی ہمیں وقت کے فرعونوں سے نجات دلا سکتی ہے۔ ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو موثر اور دیرپا بنانا ہوگا ۔ معیشت اور معاشرت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس کے لئے آئین اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ سیاسی انتشار ختم کرنے کے فوری اور حقائق پر مبنی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہمارے ارباب اختیار اور کچھ نہ کریں صرف خطے میں اپنی جغرافیائی اہمیت کا ہی فائدہ اٹھانا سیکھ لیں تو ہماری معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسائل کے حل کے لئے پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں وضع کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کرپشن کے باعث ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ہم معاشی ترقی کے حوالے سے چین کے گن گاتے ہیں مگر اپنے اس مخلص دوست سے سیکھتے کچھ نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ چین میں کرپشن کی سزا موت ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ چین میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہے تو ہمارے ہاں آئین اور قانون موم کی ناک کیوں بنا ہوا ہے، حکمران اور اشرافیہ جو چاہے کریں پھر بھی مجرم نہیں گردانے جاتے مگر غریب کی مجبوریاں بھی اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہیں۔ امریکہ سمیت پورا مغرب اس لئے ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے کہ یہ سب ممالک ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہیں۔ بہت وقت گزر چکا اب بھی ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ حالات متقاضی ہیں کہ امریکہ سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی رکھی جائے مگر اپنے مفادات اور قومی وقار کو داؤ پر لگائے بغیر اتنا تر نوالہ نہ بن جائیں کہ وقت کا کوئی فرعون ہمیں آنکھیں دکھائے اور ہماری سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کوشش کرے۔ ہمیں صرف دعوی ہی نہیں کرنا چاہئے کہ ہم ایک زندہ اور باوقار قوم ہیں اس دعوے کو عملاً ثابت کرنا چاہئے جب ہم ایسا کر گزریں گے تو امریکہ سمیت پوری دنیا ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کے بجائے ہماری آواز پر خود بخود کان دھرنے پر مجبور ہوگی بصورت دیگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور رہیں گی۔