Site icon MASHRIQ URDU

تری حرمت پہ کٹ مرے نوجواں کیسے کیسے!

Graphic1
فاروق حارث العباسی

تری حرمت پہ کٹ مرے نوجواں کیسے کیسے!

تحریر: فاروق حارث العباسی

مقبول بٹ کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں کے اندر شہادت کا جذبد آزادی کی شمع کو تیز تر کر دینے کا باعث بنا۔ ان جوشیلے نوجوانوں میں سید منظور شاہ کا نام بھارتی فوجیوں اورحکومت ہند کے لیے خوف کی علامت بن گیا۔ بعد ازاں سرزمین کشمیر نے ایسے ایسے نامور سپوت کو جنم دیا جنہوں نے بھارتی فوج کو جہنم واصل کرنے اور ان کی آتما رول دینے کا فریضہ بہ احسن طریق انجام دیا۔ گو کہ بھارتی درندوں نے ماورائے عدالت ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا مگر نہ تو بھارتی فوج اور نہ ہی بھارتی حکومت کشمیریوں کے اس جوش شہادت کو ٹھنڈا کر سکی اور نہ ہی ان کے جذبہء آزادی کو دبا سکی۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو خوفزدہ کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے جس میں پبلک سیفٹی ایکٹ بھی ایک قانون لاگو کیا گیا جسے پولیس اور بھارتی حکومت نے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا مگر کشمیریوں کی بے جگری اور
جواں مردی کے سامنے یہ ظالمانہ قانون بھی دم توڑ گیا اور کسی ایک کشمیری مجاہد کے جذبہ کوماند نہ کرسکا۔ پولیس بپلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جس کسی مجاہد کو گرفتار کرتی ہے تو اس کی چارج شیٹ پر پولیس لکھ دیتی ہے کہ اسے ایک سال کے لیے گرفتار کیا گیا ہے لہذا عدالت اس گرفتار ہونے والے مجاہد کی ضمانت نہیں لیتی اور اسے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے تو پھر جب ایک سال کے بعد اس کی رہائی کا عمل آتا ہے تو اسے جیل کے احاطے ہی سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

مجاہدین کی شہادتیں

اب تک لا تعداد کشمیری مجاہدین پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہی کئی گئیں۔ مجاہدین سالوں سے جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ پروفیسر محمد شفیق کی مثال یہاں دی جاسکتی ہے کہ وہ اس کالے قانون کے تحت عرصہ بیس سال سے زائد قید میں رہے اسی طرح ڈاکٹر قاسم بھکتو اور مشتاق اسلام جو حذب اللہ کے بانی ہیں عرصہ دراز سے سری نگر سینٹرل جیل میں قید ہیں۔ مشتاق اسلام کو کئی مرتبہ عدالت سے رہائی ملی مگر انہیں جیل کے احاطے ہی سے کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے اسی ایکٹ کے تحت دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان نوجوان مجاہدوں میں شکیل بخشی بھی اپنا ایک نام اور مقام رکھتے ہیں انہوں نے 1990ء میں اسلامک سٹوڈنٹ موومنٹ بنائی تھی اور وہ اس تنظیم کے بانی ہیں۔ یہ تنظیم نہایت متحرک اور فعال تھی انہوں نے یہ تنظیم دینی بنیادوں پر رکھی بعد ازاں اسے سیاسی بنیادوں پر لے آئے اور پھر یہ تنظیم بھی بھارتی فوجیوں کے لیے خوف کی ایک علامت بن گئی۔ ان مجاہدین نے ہر مقام پر بھارتی فوجیوں کی ناک میں دم کئے رکھا مگر بد قسمتی سے ایک دن شکیل بخشی بھارتی فوج کے نرغے میں آکر گرفتار ہو گئے اور اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت پھر انہیں جیل سے باہر نہ آنے دیا گیا۔ وہ گذشتہ 27 سالوں سے جیل میں قید ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیری مجاہدین کو کنٹرول کرنے کے لیے کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزیاں کر رکھی ہیں جیسا کہ ججوں یا پولیس افسروں کے متعلق یہ قانون ہے کہ کوئی بھارتی جج یا پولیس آفیسر ( غیر کشمیری) کشمیر کے اندر تعینات نہیں ہو سکتا مگر بھارتی حکومت نے اسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آئی جی اور ڈی آئی جی سطح کے ہندو پولیس آفیسر مقبوضہ وادی میں تعینات کئے اسی طرح ہندو ججوں کی تعیناتی بھی مقبوضہ کشمیر میں کی گئی تاکہ متعصب ہندو جج بھارتی حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے دیں اور ہندو پولیس افسران ہر طرح کے قانون کو پامال کرتے ہوئے مجاہدین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا سکیں کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت اس وقت شدید بوکلاہٹ کا شکار ہے اور اس نے ایسے ایسے شرمناک قانون وضع کررکھے ہیں جن کی دنیا کے کسی قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ قوانین باقاعدہ دشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں مگر بھارتی حکومت مجاہدین کو کچلنے کے لیے چونکہ ہر طرح کی شرم و حیا اتار کر پھینک چکی ہے لہٰذا وہ ہر کام انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جا رہی ہے۔

پروفیسر افضل گورو

پروفیسر افضل گورو شہید

پروفیسر افضل گورو کا مقدمہ اس شرم ناک قانون کی ایک زندہ مثال ہے۔ پروفیسر افضل گورو نوجوانی ہی میں اس پیشہ سے منسلک تھے اور پروفیسر کے اعلیٰ عہدے پر پہنچے۔ جب پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو اس وقت
پروفیسر صاحب کالج میں پڑھا رہے تھے۔ بھارتی حکومت نے ان پر الزام عائد کیا کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ افضل گورو ہیں اور ان ہی کی سربراہی میں پاکستانی مجاہدین نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور وہ پاکستانی جنہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا، پروفیسر افضل گورو نے ہی انہیں اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ یہ ایک نہایت بے ہودہ اور من گھڑت قصہ تھا۔ جب افضل گورو کو گرفتار کیا گیا تو ان کے پاس سے صرف ایک لیپ ٹاپ برآمد ہوا اور ہر چیز چیک کرنے کے باوجود اس لیپ ٹاپ میں کسی قسم کی کوئی ایسی ای میل بھی نہ ملی جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے کوئی ایسا غلط پیغام کسی کو بھیجا ہو سوائے 3 ناموں کے جو ان کے اپنے ہی دوستوں کے تھے لیکن ان تین ناموں کو بنیاد بنا کر کہ یہ نام ان دہشت گردوں کے ناموں سے ملتے جلتے ہیں جو حملے کے دوران مارے گئے۔ اس سلسلے میں جب وزیر خارجہ ایل کے ایڈوانی سے سوال کیا گیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا وہ پاکستانی تھے؟ تو انہوں نے نہایت بھونڈا اور مضحکہ خیز جواب دیتے ہوئے کہا کہ ” ان کی شکلیں پاکستانیوں سے ملتی ہیں ” ایڈوانی کی یہ بات دنیا بھر میں ایک احمق کا جواب کے طور پر گردش کرتی رہی مگر شرم و حیاء سے عاری بھارتی حکمرانوں پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اب بھارتی حکمرانوں کے پاس چونکہ کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد نہ تھے لہذا پروفیسر افضل گورو کو بھی اس کالے قانون کے تحت جیل بھجوا دیا گیا۔بعدازاں 9 فروری 2013ء بھارتی وقت کے مطابق صبح 8 بجے افضل گورو کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس لا قانونیت کے خلاف ہندوستان سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے کھل کر آواز بلند کی کہ کشمیر میں آپسفا اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا خاتمہ کیا جائے مگر بھارتی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس لاقانونیت اور ظلم و جبر نے نوجوان کشمیری مجاہدین کے اندر جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی۔ بجائے اس کے کہ نوجوان خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر دل ہار بیٹھتے اور کونوں کھدروں میں چھپ جاتے، وہ متحد ہو کر بھارتی درندوں کے خلاف سینہ سپرد ہو گئے۔ ان ابھرتے ہوئے نوجوان کشمیری مجاہدین میں برہان مظفر وانی کے جہاد اور اس کی شہادت کو برسوں یاد رکھا جائے گا جس نے تاریخ کے اوراق پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔

برہانی وانی

برہان وانی شہید

1994ء میں تروال کے گاؤں داد سارا میں پیدا ہونے والا برہان وانی صرف پندرہ سال کی عمر میں 16 اکتوبر 2010ء کو گھر سے فرار ہو کر مجاہدین سے جا ملا۔ آٹھ ماہ کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد جون 2011ء میں حذب المجاہدین جوائن کی۔ اس کے والد مظفر احمد وانی ایک سیکنڈری سکول میں پرنسپل تھے اور والدہ میمونہ وانی بھی ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں جنہوں نے ایم ایس سی کر رکھا تھا اور اپنے گاؤں میں قرآن وسنت کی تعلیم دیتی تھیں۔ برہان وانی کی مجاہدین میں شمولیت کی وجہ اس کا بڑا بھائی خالد مظفر وانی تھا جو بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہوا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ اسے راہ چلتے شہد کر دیا گیا تھا۔ اس ظلم و زیادتی اور ناانصافی نے برہان وانی کے دل و دماغ پر شدید ضرب لگائی جس کے بعد اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بھارتی درندوں سے اپنے بے گناہ اور معصوم بھائی کے قتل کا انتقام لے گا۔ اس طرح وہ مجاہدین کشمیر سے جا ملا اور نیٹ ورک کے ذریعے اپنے دوستوں کو اکٹھا کرنے لگا۔ اکٹھا کرتے کرتے اس نے 30 ساتھیوں کا گروپ تیار کرلیا۔ اب بھارتی درندوں کے خلاف کارروائی کا وقت شروع ہوا اور پھر چن چن کر اس نے بھارتی درندوں کو جہنم واصل کرنا شروع کیا۔ اسی دوران برہان وانی کی شہادت کے بعد سبزار بھٹ نے قیادت سنبھالی اور بھارتی فوجیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا اور جلد ہی کشمیری نوجوان مجاہدین کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ بھارتی فوج جب اسے گرفتار یا شہید کرنے میں ناکام رہی تو بھارتی حکومت نے اس کے سر کی قیمت 10 لاکھ مقرر کردی۔ سبزار بھٹ بھارتی حکومت کی کتاب میں ” MOST WANTED” کے طور پر لکھا جا چکا تھا۔ بھارتی فوج شکاری کتوں کی طرح اس کی تلاش میں تھی مگر وہ تھا کہ ہر مقام پر بھارتیوں کو چکمہ دے کر نکل جاتا مگر پھر حسب روایت بھارتی کتوں کو مخبری ہوئی کہ سبزار بھٹ ترال کے گاؤں Soimoh میں چھپا بیٹھا ہے جو سری نگر سے 36 میل کے فاصلے پر تھا لہذا جمعہ کی شب بھارتی فوجی بھاری تعداد میں وہاں پہنچ گئے اور گاؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ جمعہ کی رات سے اگلے دن یعنی ہفتے کی صبح تک یہ مقابلہ جاری رہا بالآخر صبح سوا آٹھ بجے یہ 27 سالہ عظیم مجاہد سبزار بھٹ اپنے اہم ترین کمانڈر فیضان مظفر بھٹ سمیت مرتبہ شہادت پر فائز ہو گیا۔ سبزار احمد بھٹ مسلسل 12 سال تک میدان جہاد میں رہا اور بھارتیوں کو جہنم واصل کرتا رہا۔ یہ وہ عظیم شہادتیں ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں لہذا جہاد کا یہ سلسلہ کسی بھی حال میںنہ رکا اور نہ رک سکتا ہے۔ جس قوم کے نوجوان بیدار ہو جائیں اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی. بھارتی حکومت اور بھارتی فوجی درندوں کو ہزاروں نہیں لاکھوں کشمیری مجاہدین کا سامنا ہے جو بھارتی فوجیوں کے لیے عذاب الہی بن کر ٹوٹ پڑے ہیں۔ سبزار احمد بھٹ نے جب اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا تو اس کی عمر بھی اس وقت صرف 15 سال تھی اور اس نے برہان وانی کے ہاتھ پر بیعت کی اور حذب المجاہدین میں شامل ہو گیا۔

کمانڈر محمود غزنوی، ابو دجانہ اور ریاض احمد

سبزار بھٹ شہید برہانی وانی شہید کے ساتھ

برہان وانی کی شہادت کے بعد محمود غزنوی کشمیر کا کمانڈر مقرر ہوا اور سبزار بھٹ اس کی کمان میں آگے بڑھنے لگا۔ اس کی شہادت کے بعد ڈاکٹر موسٰی کشمیر کا نیا کمانڈر مقرر ہوا جس نے اپنے مجاہد ساتھیوں کی شہادت کا خوب بدلہ چکایا۔ کشمیر کے مختلف اضلاع میں نامور نوجوان کمانڈر تحریک آزادی کشمیر میں اپنا جہادی کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ کشمیریوں کا حق بالذات ہے جسے نہ تو کوئی دبا سکتا ہے اور نہ ہی چھین سکتا ہے۔ ضلع پلوامہ کے کمانڈر ابو دجانہ جس کے سر کی قیمت 15 لاکھ مقرر کی گئی، بھارت کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح دربگ ضلع اوانتی کے کمانڈر ریاض احمد نیکو کے سر کی قیمت بھی 12 لا کھ رکھی گئی اور اس کے نائبین الطاف کچرو اور صدام پدھر Most Wanted رہے ہیں۔

یاسین ملک

یاسین ملک

یاسین ملک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما وجموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں۔ اوائل نوجوانی سے ہی وہ کشمیر کو الگ اور آزاد حیثیت دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ انھوں نے مسلح جدوجہد بھی کی اور بعد ازاں سیاسی جدوجہد شروع کی جس کی وجہ سے وہ شروع سے ہی گرفتاریوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ 2009 میں انھوں نے پاکستانی آرٹسٹ مشال ملک سے شادی کی جن سے ان کی ملاقات چند سال قبل مشرف دور میں اس وقت ہوئی تھی۔ ان دنوں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی خوشگواری پیدا ہو گئی تھی اور دونوں اطراف سے وفود ایک دوسرے کے ملک کے دورے کر رہے تھے، انھی دنوں یاسین ملک پاکستان آئے تھے اور ایک تقریب میں مشال ملک سے ملاقت ہوئی۔ آخری بار یاسین ملک کو 22 فروری 2019 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور سات مارچ کو انھیں جموں کوٹ بلوال جیل منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ پانچ اگست کو جب انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس وقت بھی یاسین ملک جیل میں تھے۔
1994ء میں جب انھیں حراست میں لیا گیا تو انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تشدد کی بجائے امن کے راستے کی پیروی شروع کر دی۔ سنہ 1999ء اور پھر سنہ 2002ء میں بھی انھیں گرفتار کیا گیا، جس دوران میں تقریباً ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد انھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ ان کی پارٹی نے 2007ء میں ‘سفر آزادی’ کے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں انڈیا کی حکومت کے مطابق انھوں نے لوگوں میں حکومت کے خلاف تاثرات پیدا کیے۔ یاسین ملک نے 2013ء میں پاکستان کی کالعدم تنظیم ‘لشکر طیبہ’ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے ساتھ سٹیج شیئر کیا، جس پر انھیں انڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ حافظ سعید کو انڈیا ممبئی بم دھماکوں کا ‘ماسٹر مائنڈ’ کہتا ہے۔ یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

مشعال ملک

مشعال ملک فاروق حارث العباسی کے ساتھ

یاسین ملک کی زوجہ محترمہ مشعال ملک کا تعلق ایک تعلیم یافتہ سے ہے۔ اُن کے پاس بیک وقت پاکستان اور انڈیا کی قومیت ہے۔ویسے وہ چکوال، پاکستان کی رہنے والی ہیں۔یٰسین ملک کی گرفتاری تک وہ اپنے شوہر کے ساتھ سری نگر میں رہتی تھیں۔کشمیری مسلمانوں کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم "پیس اینڈ کلچر” کی چیرپرسن ہیں۔ گزشتہ سال میشال ملک نے ایک خط جوانہوں راہول گاندھی کو لکھا جس میں اُن پر زور دیا کہ وہ ان کے شوہر کا معاملہ فوری طور پر پارلیمان میں اٹھائیں اور ان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت کے باعث فوری طور پر ان کی جیل سے آئی سی یو منتقلی کے لیے مودی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
مشعال ملک نے کانگریس رہنما سے یاسین ملک کی جان بچانے اوران کا ’عدالتی قتل‘ رکوانے کے لیے فوری مداخلت کی اپیل کی۔ مشعال ملک نے لکھا: ’میرے شوہر تین دہائیوں پرانے غداری کیس میں منصفانہ ٹرائل کا انتظار کر رہے ہیں، جس میں این آئی اے نے ان کے خلاف موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی صحت پر قید کے اثرات پبلک انفارمیشن کا معاملہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انہیں غیر انسانی حالات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو تمام دستیاب قانونی ریکارڈوں سے ثابت ہے۔‘مشعال ملک پاکستان میں رہتے ہوئے کشمریوں کی آزادی کی جدوجہد میں سفارتی طور پر اُن کی مدد کرنے والی بہادر خاتون ہیں۔

بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچانے والوں میں لشکر طیبہ ساؤتھ کشمیر کا چیف جنید میتو، جس کے سر کی قیمت پانچ لاکھ، ضلع بڈگام چھدوارا کا ضلعی کماند محمد یاسین +A ، ساؤتھ کشمیر ایچ ایم ڈویژن کے کمانڈر ڈاکٹرراشد بھٹ ++A , جموں اینڈ کشمیر کا ڈویژنل کمانڈر ابو حماس ++A بالخصوص بھارتی فوج کی نظر میں خطر ناک ترین مجاہدین ہیں، جن کے سروں کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کی گئی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی لہر جو چل نکلی ہے اس کی مثال اس بپھرے ہوئے سمندر کی ہے جو اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو تباہ و برباد کرتا ہوا ایک نئے ساحل کو جنم دیتا ہے اور عنقریب لہو میں ڈوبی ہوئی یہ تحریک آزادی کشمیر دنیا میں ایک نئے نقشے کو جنم دینے والی ہے۔

ظالم ہندو راجاؤں پر قہر ڈھانے والا بت شکن: سلطان محمود غزنوی

Exit mobile version