Site icon MASHRIQ URDU

بیگم بیمار ہو گئیں، اور میری بادشاہت لڑکھڑا گئی!

عبدالباسط خان

بیگم بیمار ہو گئیں، اور میری بادشاہت لڑکھڑا گئی!

تحریر: عبدالباسط خان
ہم لوگ اکثر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے باس کی دولت میں خوب اضافہ کرے، کیونکہ جب ان کے پاس کچھ زیادہ آتا ہے تو اس میں سے تھوڑا بہت ہم غریب ملازموں تک بھی پہنچ ہی جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح، ہم شوہروں کے ٹھاٹ باٹ بھی بیگم کے دم سے ہوتے ہیں۔
اگر وہ ہشاش بشاش، صحت مند اور خوش مزاج ہوں تو ناشتہ وقت پر، کپڑے پریس شدہ، اور کھانا ذائقے دار ملتا ہے۔ ورنہ… گھر کا نقشہ ایسا بدلتا ہے جیسے گلی کے نکڑ پر اچانک بجلی چلی گئی ہو!
اب دیکھیں ناں! میری اپنی بیگم دو دن سے بیمار ہیں۔ جسم میں ایسا شدید درد کہ اُٹھا بیٹھا اور لیٹا نہیں جا رہا۔ انفیکشن کی وجہ سے بخار نے ایسا گھیرا کہ گویا پورا گھرانہ آئی سی یو میں تبدیل ہو گیا ہو۔ نہ جھاڑو، نہ پوچا، نہ ناشتہ، نہ دوپہر کا کھانا۔ شام کے وقت تو کچن اتنا خاموش تھا
جیسے وہاں کبھی چائے بھی نہ بنی ہو۔
اور میں، بیگم کے سرہانے بیٹھا، اُن
 کی خیریت سے زیادہ اپنے ناشتوں کو یاد کر رہا تھا۔
میں تو بیگم کو کھلے الفاظ میں کہتا ہوں،
"یار! تم ہی ہو جو ہماری زندگی کو ذائقہ، رنگ، روشنی اور مٹھاس بخشتی ہو۔ تم ہو تو زندگی ہے، ورنہ سب کچھ بے معنی۔”
 سچ پوچھیں تو کپڑوں کی خوشبو، وقت پر ناشتہ، گرم کھانا، صاف کمرے اور واش رومز، اور وہ مخصوص چائے جس کا ذائقہ کسی ریستوران میں نہیں ملتا — یہ سب کسی فائیو اسٹار سروس سے کم نہیں۔ اور یہ پوری سروس ایک ہی خاتون چلا رہی ہوتی ہے۔
اور جب وہی خاتون بیمار ہو جائے، تو شوہر کو احساس ہوتا ہے کہ گھر چلانا واقعی کوئی آسان کام نہیں — یہ تو ایک مکمل نظام ہے، جس کی وزیراعظم خود "بیگم صاحبہ” ہیں۔
جو شخص بیگم کے ہوتے ہوئے گرم پراٹھے کھاتا ہو، وہ اُن کے بخار میں صرف سوکھی ڈبل روٹی چبا چبا کر خود بیمار ہونے کے قریب جا پہنچتا ہے۔
اب سوچیں، بیگم بیمار ہو جائیں تو وہ "شعلہ” جو روزانہ ہم پر دہکتا ہے، وہی نہ ہو تو کیا مزہ؟ نہ غصے سے گھورتی آنکھیں، نہ فرفر بولتی آواز، نہ گھنٹوں کے فون لیکچر!
 صرف سناٹا، ویرانی، اور کچن کی خاموشی۔
ایسے میں آدمی کو سمجھ آتی ہے کہ اصل "ٹھاٹ باٹ” کیا ہوتے ہیں۔ نہ بیگم کی آواز ہو، نہ ان کے ہاتھ کا کھانا — تو زندگی بے رونق ہو جاتی ہے۔
بیگم کا تندرست ہونا صرف ایک عورت کا ٹھیک ہونا نہیں، بلکہ پورے خاندان کا نظام درست ہونا ہے۔
بیگم صرف گھر کے کاموں کی ذمہ دار
 نہیں ہوتیں، وہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہوتی ہیں۔
ان کے ہاتھوں کا پکا کھانا، ان کی مسکراہٹ، تھکن کے باوجود ہمارے لیے چائے کا کپ، ہماری پریشانی میں حوصلہ بن جانا، بچوں کی تربیت اور ہر رشتے کو جوڑ کر رکھنا—یہ سب وہ خوبیاں ہیں جو کسی "مددگار” سے نہیں ملتیں۔
بیگم، صرف سہولت یا ذمہ داری نہیں ہوتیں، وہ گھر کی روح، محبت کی علامت، اور زندگی کی اصل ہمسفر ہوتی ہیں۔
تو دُعا کریں — اپنی، آپ کی، سب کی بیگمات صحت مند رہیں۔
 کیونکہ ان کی صحت میں ہی گھر کی رونق ہمارے آرام، ہمارے ناشتوں اور ہمارے کھانوں کی خوشبو چھپی ہے۔
آپ بیمار ہو جائیں، پر دُعا کریں کہ بیگم کبھی بیمار نہ ہو۔

اقبال اور جناح، بنے میرے مہمان

Exit mobile version