بھارت کی آبی جارحیت: حالات کے آئینے میں
رپورٹ: اصغر علی کھوکھر
پانی آللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو ہمہ وقت میسر نہ ہو تو انسان بے بس نظر آتا ہے. سو اگر یہ کہا جائے کہ پانی زندگی اور خشکی موت ہے تو غلط نہ ہوگا. یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس پر سوچ بچار جاری ہے کہ اگر زیر زمین پانی کی کمی اسی رفتار سے ہوتی رہی اور انسانی آبادی بڑھتی رہی تو اگلے چالیس پچاس برسوں بعد حضرت انسان کو جو مشکلات درپیش ہوں گی ان کاحل کیا ہوگا. یہ خوف پر مبنی ایسی سوچ ہےجس کے تحت ترقی یافتہ ممالک اس خدشے سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں مگر پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کے عوام اور حکمران اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہے۔
اس حوالے شوریٰ ہمدرد پاکستان کی روح رواں آپا سعدیہ راشد کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ انہوں نے شوریٰ ہمدرد کے ارکان کو دعوت دی کہ وہ سات مئی 2025 کے اجلاس میں اس مسئلہ کو زیر بحث لا کر ایسی جامع آرا و تجاویز مرتب کرکے حکومت کو بھجوائیں جو مستقل قریب میں اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکیں۔
اس موقع پر مقررین نے جہاں بھارت کی آبی دہشت گردی پر کھل کر اظہار کیا وہاں اس مسئلے کے تکنیکی اور سیاسی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا۔
مقررین نے واضح کیا کہ بھارت کی آبی دہشت گردی اپنی جگہ گزشتہ پچھتر برسوں میں ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے پانی کے مسئلہ حل کرنے کی سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس ضمن میں عوام جو کہ وطن عزیز کے حقیقی مالک ہیں کو کبھی بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، ہمیشہ فرضی اور ناقابل عمل منصوبے بنائے گئے۔ قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے متعلقہ ارباب اختیار نے اپنے مالی اور سیاسی مفادات سمیٹنے پر توجہ مبذول رکھی، اس حوالے سے بھارت سرکار نے جو عیاری اور مکاری کی اس کے منفی اثرات کا مرتب ہونا اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے مگر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ہمارے بڑے بڑے بااثر اور عوام میں مقبول حکمرانوں نے بھی اس تناظر میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ نصف صدی سے تو کالا باغ ڈیم زیر بحث چلا آ رہا ہے، چلیں اگر بوجوہ کالا باغ ڈیم نہیں بھی سکتا تھا تو چھوٹے ڈیم تو درجنوں کے حساب سے بن سکتے تھے۔ افسوس کہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا اگر ملک بھر چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی تعمیر کر لئے جاتے تو بارشوں کا پانی محفوظ کرکے نہ صرف ہم زرعی پیداوار بڑھا سکتے تھے بلکہ کے طویل بحران سے بچا جا سکتا تھاـ
مقررین نے کہا کہ بھارت کی آبی دہشت گردی کے خدشات تو کئی دہائیوں سے ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھےـ یہی وجہ تھی کہ مرحوم مجید نظامی نے بہت پہلے یہ حقیقت واضح کردی کہ بھارت ہمارا پانی روک کر ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی کوشش کر سکتا ہے، سو بجائے اس کے کہ ہم بھوکے پیاسے مر جائیں ہم اپنے حصے کا پانی حاصل کرنے کے لیے بھارت سے لڑتے ہوئے کیوں نہ مر جائیں ـ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ بھارت سے پانی کے مسئلے پر کسی بھی وقت جنگ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ آج بھارت نے سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کرکے دراصل طبل جنگ بجا دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام چھوٹے بڑے سیاسی دھڑے، ضد اور آنا چھوڑ دیں اور یک جاں ہو کر بزدل اور مکار دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، تاکہ بھارت سرکار کی عقل ٹھکانے آ سکے۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور بے حمیتی کا نتیجہ ہے کہ بھارت نہ صرف ہمیں پانی کے مسئلے پر بلیک میل کر رہا ہے بلکہ اس نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے اس کی متنازعہ حیثیت بھی ختم کر دی ہے، جب کہ ہم باہمی سیاسی جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پانی کا مسئلہ مستقل طور پر اسی صورت حل ہو سکتا ہے جب کشمیر مکمل طور پر آزاد ہو گاـ قائد اعظم نے ایسے ہی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار نہیں دیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریا کشمیر سے گزرتے ہیں اگر ہماری شہ رگ یعنی (کشمیر) بھارت کے قبضے میں چلا گیا تو وہ ہمارا پانی روک کر ہماری زمینوں کو بنجر کر کے ہمیں بھوکا پیاسا مار سکتا ہےـ
اس تناظر میں مقررین کا کہنا تھا کہ حالیہ جنگ میں چونکہ مودی سرکار نے ہمارے آبی ذخائر کو نشانہ بنایا ہے لہذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ بھارت کے آبی ذخائر کو نشانہ بنائے۔ اگر اب بھی بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا گیا اور ہم مصلحتوں کا شکار رہے تو بھارت ہماری سلامتی پر باربار کاری ضرب لگانے سے باز نہیں آئے گا۔
مشرق اردو کے واٹس ایپ چینل کے لیے لنک پر کلک کریں
https://whatsapp.com/channel/0029VaMbFD5HFxP1yBkku21x