Site icon MASHRIQ URDU

ایک اور یوم مئی گزر گیا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔

عصر حاضر کے اہل قلم

ایک اور یوم مئی گزر گیا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور یوم مئی گزر گیا مگر مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کا کام سرکاری وعدوں اور دعووں تک محدود نظر آیاـ ریاست حقوق کے تحفظ کے اعتبار سے عوام کی ماں کہلاتی ہے مگر جس اولاد کی ماں سوتیلے پن کاروپ دھار لے اس کے بنیادی حقوق ہمیشہ کے لیے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عوام اور حکام کے مابین تعلقات کی نوعیت بالکل یہی ہے کہنے کو ریاستِ پاکستان پچیس کروڑ عوام کی ماں ہے لیکن شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے اعتبار سے ریاست کا نظام چلانے والوں کا مجموعی رویہ کسی ظالم اور جابر حکمران سے کم نہیں۔ مجموعی صورت حال یہ ہے کہ کیا حکمران اور کیا مزدور لیڈر دونوں مزدور کے حقوق کے تحفظ کی آڑ میں اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ہر سال یوم مئی پر ہونے والے جلسوں اور نکالے جانے والے جلوسوں میں ہونے والی تقریروں میں سبز باغ دکھا کر مزدور دنیا کو وعدہ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو حکمران اپنے ہی بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد نہیں کرا سکتے، انہی اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کا حق کیسے حاصل ہے؟ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق مزدور کی ماہانہ کم از کم اجرت سینتیں ہزار ہے مگر پرائیویٹ سیکٹر کیا سرکاری اداروں میں بھی کنٹریکٹ پر کام کرنے والے لاکھوں ملازمین بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ پر آٹھ سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ انہی مزید کوئی سہولت حاصل نہیں، انہیں ادویات ملتی ہیں نہ کرایہ آمدورفت، یہ ظلم کی انتہا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنے ہی بنائے گئے قوانین پر عمل نہیں کرا رہی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو مالکان قصائیوں کا روپ دھارے ہوے ہیں ـ پندرہ سے اٹھارہ ہزار تنخواہ دے کر ملازمین سے سینتیں ہزار پر دستخط کرا لیتے ہیں ایسے ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لیبر اسپیکٹر تک مالکان سے ملے ہوئے ہیں جو ورکر کسی فورم پر شکایت کرتے ہیں انہیں ملازمت سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے، اگر ان حالات سے متاثرہ کوئی ملازم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایے بھی تو فرسودہ عدالتی نظام میں اس کی داد رسی میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ وہ مسائل در مسائل کا شکار ہو کر دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے یا موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔
یہ حالات سسٹم کے ساتھ ساتھ اربابِ اختیار کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ امسال یکم مئی کو مزدور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دو وفاقی وزیروں نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ملازمیں کی تنخواہوں میں اضافے کا وعدہ کیا ہے، ہمارا پھر یہی سوال ہے کہ جو حکومت اپنے پچھلے نوٹیفکیشن پر عمل نہیں کرا سکی وہ نئے حکم پر کیسے عمل کرا سکے گی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت یہ کام کرنے میں مخلص ہے تو اداروں پر اپنی قانونی رٹ قائم کرے تاکہ قانون کی بالادستی قائم ہو سکے خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر میں مزدوروں کے حقوق پامال ہونے کو روکا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہر مل یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدورں کو حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی کم از کم تنخواہ ضرور مل سکےـ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مزدور خوشحال ہو گا تو ملک خوشحال ہو گا کیونکہ بروقت اور مناسب ماہانہ اجرت ملنے سے مزدور کی استعدادِ کار میں بہتری آئے گی اسی طرح سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر میں نہ صرف ڈیوٹی کے اوقات آٹھ گھنٹے ہونے چاہئیں بلکہ دیگر سہولتوں کا حصول بھی یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ عملاً ثابت ہو سکے کہ حکومت رعایا سے حقیقی ماں کا سا سلوک کر رہی ہے۔

سماجی برائیوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت

Exit mobile version