Site icon MASHRIQ URDU

اُچے برج لاہور دے! مسجد وزیر خان دہلی دروازہ

pic 1

مسجد وزیر خان اندرون دہلی گیٹ لاہور

اُچے برج لاہور دے! مسجد وزیر خان دہلی دروازہ

شہزاد عابد خان

تاریخی پس منظر اور تعمیرات

لاہور کے تاریخی دل میں واقع یہ مسجد دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازے سے محض ایک فرلانگ (تقریباً 200 میٹر) کے فاصلے پر اپنی شان سے کھڑی ہے۔ مغلیہ فن تعمیر کا یہ شاہکار اپنے پیچیدہ نقش و نگار اور مہارت سے بنائے گئے ڈیزائن کی وجہ سے کاریگروں کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ اس مسجد کا نام نواب وزیر خان کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا اصل نام شیخ علم الدین انصاری تھا اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ مسجد وزیر خان کو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں 1634ء میں تعمیر کا آغاز کیا گیا اور 1641ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کا حکم اس وقت کے پنجاب کے گورنر شیخ علم الدین انصاری (نواب وزیر خان) نے دیا تھا جو شاہ جہاں کے طبیب خاص بھی تھے۔

مسجد کی تعمیر کا مقصد مذہبی عبادت کے ساتھ ساتھ مغلیہ طاقت اور ثقافتی عظمت کو اجاگر کرنا تھا۔ یہ مسجد لاہور کے قدیم شہر میں دہلی دروازے کے قریب واقع ہے اور شاہی گزرگاہ پر واقع ہونے کی وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

مسجد وزیر خان کے صحن کا منظر

تعمیراتی خوبصورتی اور فنکارانہ عناصر

مسجد وزیر خان مغلیہ فن تعمیر کا عظیم شاہکار ہے۔ جس میں ایرانی، ہندوستانی اور وسط ایشیائی طرز تعمیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں۔ ہرمینار اونچائی 107 فٹ ہے۔جن پر نفیس گلکاری اور نقاشی کی گئی ہے۔ گنبدوں پر چھوٹے دائروی ڈیزائن اور کلس لگے ہیں جو دھوپ میں چمکتے ہیں۔ دیواروں پر کاشی کاری اور فرسکو آرٹمیں قرآنی آیات، فارسی اشعار اور پھولوں کے نقشے بنے ہوئے ہیں۔ نیلے، پیلے اور سبز رنگوں کا استعمال اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔ دیواروں پر عربی اور فارسی میں نستعلیق اور ثلث خط میں خطاطی کی گئی ہے، جو قرآن کی آیات اور صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔

صحن اور بازارِ خطاطین

اُچے برج لاہور دے

صحن: مسجد کا مرکزی صحن 160×130 فٹ پر محیط ہے، جس میں سرخ اینٹوں سے بنا ہوا فرش اور وسط میں وضو کے لیے حوض موجود ہے۔ یہ صحن امن و سکون کا مرکز ہے اور نمازیوں کے بڑے اجتماع کے لیے موزوں ترین ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)
بازارِ خطاطین: مسجد کے داخلی دروازے کے باہر ایک پر رونق بازار واقع ہے جو فن خطاطی کے سازو سامان اور مذہبی کتب کی فروخت کے لیے مشہور تھا۔ آج بھی یہ بازار اپنی رونق اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کے دل موہ لیتا ہے۔ یہ بازار کبھی مغلیہ دور کی ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

مذہبی اور ثقافتی اہمیت

مسجد کے گنبد

صوفی روابط: مسجد کے صحن میں 13ویں صدی کے صوفی بزرگ حضرت محمد اسحاق گاذرونی المعروف میراں بادشاہ کا مزارموجود ہے، جو اسے روحانی تقدس بخشتا ہے۔
ثقافتی ورثہ: مسجد یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست کے لیے نامزد ہے اور لاہور کے ثقافتی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

بحالی اور موجودہ حالت

مسجد کو جدید دور میں شہری توسیع اور قدرتی عوامل جیسے زلزلے اور آلودگی کے خطرات کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) اور بین الاقوامی اداروں نے 3D اسکیننگ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کی بحالی کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ مسجد وزیر خان نہ صرف عبادت گاہ بلکہ مغلیہ فن تعمیر، تاریخ اور روحانیت کا مرکز ہے۔ اس کی تعمیراتی اور ثقافتی اہمیت اسے پاکستان کے اہم ترین تاریخی مقامات میں سے ایک بناتی ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

چوک وزیر خان اور داخلی راستے:

اُچے برج لاہور دے

مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع چوک ”چوک وزیر خان“ کے نام سے معروف ہے جو قدیم دور میں تجارتی و ثقافتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس چوک میں داخلے کے لیے تین محرابی دروازے بنائے گئے ہیں۔
-مشرقی جانب: سفید رنگ کا ”چٹا دروازہ“۔
– شمالی جانب: راجا دینا ناتھ کی حویلی سے ملحق ایک دروازہ۔
-شمالی زینے کا دروازہ: جو مسجد تک رسائی راستہ ہے۔

تعمیراتی عظمت:

مسجد کے مینار

مسجد کے بلند مینار 107 فٹ کی شاندار بلندی تک پہنچتے ہیں جن پر کی گئی نقاشی اور گلکاری مغلیہ آرٹ کی نایاب مثال ہے۔ اس کی تعمیر 1634ء میں شروع ہوئی اور سات سال کی محنت کے بعد 1641ء میں مکمل ہوئی۔ یہ لاہور کی مشہور مسجد”بادشاہی مسجد“سے 32 سال قبل تعمیر کی گئی جو اس کے تاریخی تقدس کو اور بڑھا دیتی ہے۔

فنی رموز:

اس مسجد کو مغل دور کی ”کاشی گری اور کانسی کے نفیس کام“ والی سب سے خوبصورت عمارت قرار دیا جاتا ہے۔ دیواروں پر جڑے ہوئے رنگین ٹائلز، قرآنی آیات کی خطاطی، اور پھولوں کے نقش و نگار اس کی شناخت ہیں۔ یہ نہ صرف عبادت گاہ بلکہ مغلیہ ثقافت کا ایک زندہ میوزیم ہے جو سیاحوں اور تاریخ دانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

مسجد وزیر خان کا جغرافیائی محل وقوع اور اردگرد کے علاقے

مسجد وزیر خان لاہور کے تاریخی مرکز میں ایک منفرد مقام پر واقع ہے۔ دہلی دروازے سے شاہی گزرگاہ پر سیدھا چلنے پر تقریباً 300 میٹر (984.25 فٹ) کے فاصلے پر یہ مسجد اپنی پرشکوہ عمارت کے ساتھ نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ مسجد سے کچھ قدم پہلے ”چوک وزیر خان“ واقع ہے، جو ایک اہم سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمال کی طرف ایک راستہ ”چوہٹہ قاضی محلہ“ کی جانب جاتا ہے۔ مشرق کی طرف شاہی گزرگاہ دہلی دروازے سے شروع ہوتی ہے اور مسجد کے جنوب سے گزرتی ہوئی ”قلعہ لاہور“ تک پہنچتی ہے۔

مسجد کے اردگرد کے علاقے:

مغرب کی طرف (قبلہ رخ): لکڑمنڈی بازار واقع ہے۔ جنوب کی طرف گنجان آبادی اور”بازارِ خطاطی“ پھیلا ہوا ہے جب کہ شمال مشرق کی طرف ”کوچہ حسین شاہ“ نامی گنجان آباد علاقہ موجود ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

داخلی راستے:

مسجد کا جنوبی داخلی دروازہ چوک وزیر خان سے 43.75 میٹر (143.54 فٹ)کے فاصلے پر ہے۔ شاہی گزرگاہ پر مسجد کے متصل چلنے سے ”کوتوالی چوک“ آتا ہے جو مسجد کے جنوبی دروازے سے 79.55 میٹر (260.99 فٹ) دور ہے۔

قلعہ لاہور تک رسائی کے راستے:

مسجد کے اندر دوکانیں

پہلا راستہ (مغرب کی جانب):
– کشمیری بازار، رنگ محل، ہٹہ بازار، پانی والا تالاب،بازار بارود خانہ سے ہوتا ہوا قلعہ روڈ تک جاتا ہے جہاں لاہور کا قلعہ واقع ہے۔
دوسرا راستہ (جنوب مغرب کی جانب):
کوتوالی چوک،کوتوالی والا بازار، چونا منڈی بازار، اکبری دروازہ اور پھر قلعہ لاہور کی جانب جایا جاسکتاہے۔
اس راستے پر ”مریم زمانی بیگم مسجد“ بھی واقع ہے جو قلعے کے اکبری دروازے کے سامنے چند قدم کی دوری پر ہے۔

قریبی تاریخی مقامات:

اُچے برج لاہور دے

مسجد کے عقب میں مغربی راستے پر ”چینیاں والی مسجد“ واقع ہے۔
شاہی گزرگاہ کے ساتھ قدیم بازاروں اور ثقافتی مراکز کا ایک سلسلہ ہے جو مغلیہ دور کے تجارتی بازاروں اور رونق کی یاد دلاتا ہے۔

بانی کی شخصیت اور عہدِ مغلیہ سے وابستگی

مسجد وزیر خان کے بانی ”شیخ علم الدین انصاری“ اپنے لقب ”’وزیر خان“ سے معروف ہوئے۔ وہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے طبیبِ خاص ہونے کے ساتھ ساتھ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کے دور میں بھی شاہی طبابت کے فرائض انجام دے چکے تھے۔پنجاب کے علاقہ چنیوٹ کے رہنے والے شیخ علم الدین انصاری نے جنوری 1621ء (صفر 1030ھ) میں آگرہ کا رخ کیا اور ملکہ نورجہاں کی بیماری کے دوران ان کا کامیاب علاج کرکے شاہی دربار میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔

اس خدمت کے صلے میں انہیں ”منصبِ ہفت ہزاری“ (سات ہزار سپاہیوں کا کمانڈر) اور”وزیر خان“ کا خطاب عطا ہوا۔ بعد ازاں شاہ جہاں کے لاہور آنے پر انہیں 1632ء سے 1639ء تک”ناظم لاہور“ (گورنر) کے عہدہ پر فائز کردیا گیا۔

تعمیراتی کاوشیں اور وقف نامہ

مسجد میں واقع حجرے

شیخ علم الدین انصاری المشہور وزیر خان نے 1635ء (1045ھ) میں مسجد کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی ”بازار دہلی دروازہ“ کو آباد کیا۔ انہوں نے صوفی بزرگ ”سید محمد اسحاق گاذرونی (میراں بادشاہ)“ کے مزار کو بھی مسجد کے احاطے میں شامل کرکے اسے روحانی مرکز بنایا۔ سات سال کی محنت کے بعد یہ مسجد 3 دسمبر 1641ء (شعبان 1051ھ) کو مکمل ہوئی۔

تعمیر کے بعد وزیر خان نے ایک”وقف نامہ“ تحریر کروایاجس کی تاریخ (یکم رمضان 1045ھ/ 3 دسمبر 1641ء) مسجد کی تکمیل سے ہم آہنگ ہے۔ اس دستاویز کو معروف تاریخ دان ”نور احمد چشتی“ نے اپنی کتاب”تحقیقات چشتی“ میں محفوظ کیا ہوا ہے۔ 1864ء تک مسجد کی نگرانی کے فرائض”مرزا ایزد بخش“ سمیت وزیر خان کی اولاد کے پاس رہے۔

سکھ دور میں مسجد کا مقام

مہاراجا رنجیت سنگھ (1801-1839ء) کے عہد میں لاہور کی بیشتر تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن مسجد وزیر خان محفوظ رہی۔ اس کی دو اہم وجوہات مانی جاتی ہیں۔
وزیر خان کا”گورو ارجن دیو“ سے روحانی تعلق تھا جس کی وجہ سے سکھ حکمرانوں نے احتراماً مسجد وزیر خان کے تقدس کو پامال نہیں کیا۔ (اُچے برج لاہور دے)
ایک روایت کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ موراں نامی طوائف کے ساتھ مسجد کے مینار پر عیاشی کی نیت سے رات گزارنے آیا تو راتوں رات بیمار پڑ گیا۔ لوگوں نے اسے ”میراں بادشاہ کے غضب“سے جوڑاجس کے بعد مہارا رنجیت سنگھ نے مزار پر 500 روپے نذرانہ ادا کیااور اپنے گناہ کی توبہ کی۔ کہتے ہیں کہ توبہ کے بعد اُس کی طبیعت ٹھیک ہونا شروع ہوگئی۔یہ زبان در زبان سنائی جانے والی ایک کہانی ہے اس واقعہ کی حقیقت پر کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔
سکھ دور میں مسجد کی بحالی محدود رہی. صرف ”مہتمم نور ایمان“نے میناروں کی بالائی منزلوں کے دروازے بند کروائے تاکہ زلزلے کے خطرے سے بچا جاسکے۔ (اُچے برج لاہور دے)

مرمت اور ورثے کی بحالی

مسجد کے صحن میں خوص کا منظر

مغلیہ دور حکومت میں مسجد کی دیکھ بھال حکام کی نگرانی میں ہوتی تھی لیکن سکھوں اور بعد کے برطانوی دور میں اسے نظرانداز کیا گیا۔ 19ویں صدی تک مسجد کی مرمت کی طرف توجہ نہیں دی گئی حالانکہ اس کے فنکارانہ عناصر وقت کے ساتھ ماند پڑنے لگے تھے۔

سکھ دور میں بھی وزیر خان کی اولاد کو مسجد سے ملحقہ دوکانوں اور سرائے کا کرایہ ملتا رہا، جو تاریخی دستاویزات میں درج ہے۔ مسجد وزیر خان کی عمارت”پختہ اینٹوں“ (خشتی) اور”سنگِ سرخ“ کے شاندار امتزاج سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی مضبوطی اور پائیداری کا راز”چونا گار مستحکم تعمیراتی تکنیک“ میں پنہاں ہے جو تقریباً چار سو سال گزرنے کے باوجود بھی اسے اصلی حالت میں برقرار رکھے ہوئے ہے۔

داخلی دروازے: مسجد میں داخلے کے لیے دو دروازے استعمال کیے جاتے ہیں۔

صدر دروازہ:
یہ دروازہ مشرقی جانب واقع ہے جسے تزئین و آرائش کے لیے خاص اہمیت حاصل ہے۔ دوسرا شمال مشرقی دروازہ ہے جو عام دنوں میں کم استعمال ہوتا ہے۔
وسیع صحن:
صحن کا فرش ”سرخ چھوٹی اینٹوں“ سے مزین ہے جبکہ مرکز میں ”وضو کے لیے حوض“ بنایا گیا ہے جو مسجد کی خوبصورتی کو مذید دلکش بناتاہے۔
 حجرہ نما کمرے:
مشرقی، جنوبی اور شمالی اطراف میں 32 ”حجرے“ بنائے گئے ہیں جو مسجد کے طلبہ کے قیام، دینی درس و تدریس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

فنکارانہ رموز اور عالمی شہرت:

فارسی، عربی کی خطاطی

دیواروں پر رنگین ٹائلز، قرآنی آیات کی نستعلیق خطاطی اور پھولوں کے نقش و نگار مسجد کو فن تعمیر کا شاہکار بناتے ہیں۔ یہاں کی”کانسی کار نقاشی“ اتنی نادر ہے کہ دنیا بھر کے فنکار اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

جب کہ عربی اور فارسی خطاطی کے نمونے اپنی مثال آپ ہیں،ماہرین خطاطی انہیں دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں ”لاہور آرٹس سکول“ کے طلبہ کو یہاں لایا جاتا تھا تاکہ وہ دیواروں پر بنے نقوش کی نقول اُتار کر فن سیکھ سکیں۔ 1890ء میں سکول کے پرنسپل ”جان لاکووڈ کپلنگ“ نے مسجد وزیر خان پر لکھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ”یہ عمارت خود ایک”فن کی درسگاہ“ ہے مگر اس کے نقش و نگار عدم توجہی کی وجہ سے تیزی سے مٹ رہے ہیں۔“ (اُچے برج لاہور دے)

اگرچہ مسجد کی ساخت اب تک محفوظ ہے لیکن ”دیواروں کی کاشی کاری“ اور”نقش و نگار“ وقت کے ساتھ دھندلا رہے ہیں۔مسجد وزیر خان کے درودیوار کے نقش ونگار پر کپلنگ لکھتے ہیں کہ ”ان نقوش کو عجائب گھروں میں محفوظ کرنا ناگزیر ہے کیونکہ یہ نوجوان فنکاروں کے لیے بہترین تربیتی مواد ہیں۔“

مسجد وزیر خان نہ صرف عبادت گاہ بلکہ فن، تاریخ اور تعلیم کا ایک زندہ مرکز ہے۔ اس کی تعمیراتی تفصیلات اور فنکارانہ جھلکیاں اسے دنیا بھر میں لاہور کے ثقافتی ورثے کی علامت بناتی ہیں۔ (اُچے برج لاہور دے) چوک وزیر خان میں کھڑے ہوکر مسجد کے ”مشرقی صدر دروازے“ (دروازہ کلاں) کی جانب نظر اٹھائیں تو یہ منفرد تعمیری جمالیات کا ایک حسین نمونہ نظر آتا ہے۔

مسجد کے موجودہ”چبوترے“ پر صرف”پانچ سیڑھیاں“ باقی رہ گئی ہیں جو سرخ پتھر (سنگ سرخ) سے تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ سیڑھیاں صدر دروازے تک رسائی کو آسان بناتی ہیں اور تاریخی دور کی مضبوطی کی علامت ہیں۔ دروازہ کلاں مسجد کا سب سے بڑا اور مرکزی داخلی راستہ ہے جو اپنی”دو منزلہ محراب“ اور نفیس آرائش کے لیے مشہور ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)
پہلی منزل:
محراب کے دائیں اور بائیں جانب ”خطاطی“ اور”کاشی کاری“ کے شاہکار موجود ہیں، جہاں قرآن کی آیات اور فارسی اشعار کو نستعلیق خط میں سونے کے پانی سے سجایا گیا ہے۔

دوسری منزل:
یہاں ”دو منقش کھڑکیاں“ بنائی گئی ہیں جن کے اوپر مزید خطاطی کے پارچے لگے ہوئے ہیں۔ یہ کھڑکیاں سورج کی روشنی کو مسجد کے اندر تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ صدر دروازے کے دونوں جانب”دو بڑے مینار“

میراں بادشاہ کا مزار

(جنوبی اور شمالی) کھڑے ہیں جو 107 فٹ کی بلندی تک پہنچتے ہیں۔ یہ مینار مسجد کی بیرونی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ موجودہ دور میں صدر دروازے کو لوہے کے جالیدار ڈیزائن سے تبدیل کیا گیا ہے جسے عام دنوں میں کھلا رکھا جاتا ہے۔

جب مسجد کی مرمت یا تزئین کا کام ہوتا ہے تو ”شمال مشرقی دروازہ“ استعمال کیا جاتا ہے جو تاریخی ڈیزائن کو محفوظ رکھنے میں مددگار ہے۔ (اُچے برج لاہور دے) دروازے کی ہر اینٹ اور سنگ مرمر پر ”پھولوں کے نقش“، ”ہندسی نقوش“ اور”قرآنی آیات“ کی خطاطی کی گئی ہے جو مغلیہ دور کی مہارت کو اجاگر کرتی ہے۔ سرخ پتھر اور نیلے ٹائلز کا امتزاج اس دروازے کو لاہور کی ثقافتی شناخت کا حصہ بناتا ہے۔

یہ صدر دروازہ نہ صرف مسجد تک رسائی کا ذریعہ بلکہ ”مغلیہ آرٹ کے لیے ایک زندہ گیلری“ ہے جو ہر آنے والے کو تاریخ کے دھارے میں کھینچ لیتا ہے۔ مسجد کے صحنِ عام کے مغربی جانب ایک بلند چبوترا (صحنِ خاص) واقع ہے، جو خصوصی نمازیوں کے لیے مخصوص ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

مسجد کی چھت پر درمیان میں ایک ”بڑی محراب کلاں“ اور اس کے دونوں جانب دو چھوٹی محرابیں ہیں جو”کاشی کاری“ اور”کانسی کے نفیس کام“سے مزین ہیں۔ بیرونی دیواروں پر”طاقچوں“ میں ”آیت کرسی“ اور دیگر قرآنی آیات نستعلیق خط میں کندہ ہیں۔ زیریں طاقچوں پر”اسماء النبی ﷺ“،”اسماء خلفاء“ اور احادیثِ مبارکہ کی نقاشی کی گئی ہے۔ محرابِ کلاں کے پاس ایک ”قدیم لکڑی کا منبر“ موجود ہے جس کے تین زینے اور بائیں جانب قرآن رکھنے کے لیے لکڑی کا سہارا بنایا گیا ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)

مسجد کے صحن

مسجد کے محراب

مسجد کے صحن کا فرش چھوٹی سرخ اینٹوں سے بنایا گیا ہے جو خوش اسلوبی سے ترتیب دیا گیا ہے۔ سکھ دور میں اس کی مرمت نہ ہونے کے باوجود یہ فرش اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔ صحن خاص کا فرش صحن عام سے بلند ہے جو نماز کے لیے ایک الگ روحانی فضا فراہم کرتا ہے۔ صحن عام کا کل رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ (لمبائی) × 117 فٹ (چوڑائی) ہے۔ اسی طرح نماز کے دالان کا رقبہ 131 فٹ 3 انچ (لمبائی) × 42 فٹ (چوڑائی) ہے، جو صحنِ عام کے کل رقبے میں شامل نہیں۔

مزار میراں بادشاہ: روحانی مرکز

اُچے برج لاہور دے

مسجد کے اندر حضرت سید محمد اسحاق گاذرونی (میراں بادشاہ) کا مزار واقع ہے جن کا انتقال 1384ۂوا اور اُن کو اس مقام پر دفنایا گیا جب مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا تو مزار کو مسجد میں شامل کرلیا گیا۔
اصل قبر تک پہنچنے کے لیے 8 سیڑھیاں اترنی پڑتی ہیں جب کہ قبر کامقام جو ایک یہ خانہ کی شکل میں ہے کا رقبہ 7 گز × 5 گز ہے۔ (اُچے برج لاہور دے)
مسجد کی سیڑھیوں کے اوپر ایک منقش بارہ دری بنائی گئی ہے، جس کی چھت پر فنکاری کے نمونے ہیں۔2012-2015ء میں حکومت پنجاب اور آغا خان ٹرسٹ کے تعاون سے دہلی دروازہ سے مسجد تک تاریخی عمارتوں کی بحالی کا کام کیا گیا جس کے تحت اس کے بازار اور ملحقہ علاقے کو اصل شکل میں واپس لانے میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔ مسجد وزیر خان کی بحالی کے لیے امریکا اور ناروے نے مالی معاونت فراہم کی۔(اُچے برج لاہور دے)

مسجد کی نگرانی کی ذمہ داری نواب وزیر خان کی اولاد ملی اور وہ ہی مسجد کے باہر کی دوکانوں کا کرایہ وصول کرتے رہے لیکن 1951ء میں لاہور ہائیکورٹ نے مرزا افتخار علی کو مسجد کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ جب کہ اب مسجدمحکمہ اوقاف پنجاب کے زیرِ انتظام ہے۔ 14 دسمبر 1993ء کوحوالہ نمبر 1278 کے تحت مسجد کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا گیا۔ (اُچے برج لاہور دے)

Exit mobile version