اقبال اور جناح، بنے میرے مہمان

آج تیسرا دن تھا کہ میرے بیوی بچوں نے فاقہ کیا ہوا تھا۔ میرے اخبار مالک نے مجھے دو ماہ سے لارا لگایا تھا کہ اشتہاروں کے پیسے ملتے ہیں تو آپ سب کی تنخواہیں دے دونگا۔ میں حیران ہوں کہ اگر اس کو ابھی تک اشتہارات کے پیسے نہیں ملے تو اس کا کارروبار کیسے چل رہا ہے اور یہ پچھلے ہفتے ہی پندرہ دن کی لندن یاترا کر کے کیسے واپس آیا ہے۔ ایک دو ہمدرد اور جاننے والوں سے قرض لیکر چند دن تو چلائے لیکن آخر کب تک کیونکہ قرض دینے والے بھی اپنی ہی قبیل کے لوگ تھے۔ آج بیوی نے سختی سے کہا تھا کہ آتے ہوئے کچھ پیسوں کا بندوبست کرتے آنا۔ میں تو تمہاری بھوک میں شرکت کر لوں گی لیکن ان معصوموں کی بھوک مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔ آخر میں کب تک خالی ہنڈیا میں ڈوئی اور پانی میں مدھانی چلاتی رہوں گی؟
میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وہ بھی ٹھیک کہتی تھی اور مالک بھی دھمکی لگاتا ہے کہ اگر صبر نہیں کر سکتے تو ملازمت چھوڑ دو۔ اگلے روز تو میں پھٹ پڑا اور کہہ دیا کہ ٹھیک ہے میرا حساب کردیں میں نوکری چھوڑ دیتا ہوں۔ آگے سے دیدے ماتھے پر رکھ کر بولا کہ تنخواہ تو تب ہی ملے گی جب اشتہارات کے پیسے آئیں گے اور میں اپنا سا منہ لیکر باہر نکل آیا۔
اس وقت رات کے دس بج رہے تھے جب میں مایوسی کے عالم میں مینار پاکستان کے پارک میں جا بیٹھا تھا۔ گھر جانے کو من نہیں کررہا تھا کہ پیسوں کا کہیں سے بندوبست نہیں ہوا تھا اور بچوں کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی اور بیگم کو سنانے کیلئے بھی کوئی خاطر خواہ بہانہ نہیں تھا۔ اچھے وقتوں میں ایک آلٹو لی تھی، پھوکٹ ہونے کے باعث وہ بھی پچھلے دو ماہ سے گلی میں کھڑی تھی۔ تھوڑے سے پیسے ہوتے تو ٹیکسی ہی چلا لیتا۔ صحافی ہوں توکیا ہوا۔ حلال کمانے میں کیا برائی ہے؟
ان ٹاؤٹوں اور لفافہ صحافیوں اور کالم نگاروں سے تو ہزار درجے بہتر ہوتا۔ صبح یوم آزادی ہے۔ عموماً یوم آزادی کی شب پاکستان کے ہر شہر میں بہت رش اور رونق میلہ ہوتا ہے۔ بچے بالے اور نوجوان باجے گاجے اور موٹر سائیکلون کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں لیکن اس روز حیرت انگیز طور پر خاصی خاموشی تھی۔ میں مینار پاکستان کے پلیٹ فارم پر اکیلا سر جھکائے بیٹھا تھا کہ کسی کے سیڑھیاں اترنے کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو دو ہیولے سیڑھیاں اتر رہے تھے جن میں سے ایک تو منحنی سا قراقلی پہنے ہوئے تھا اور دوسرا درمیانے وجود کا مالک تھا۔ دونوں میرے سر پر آکر کھڑے ہوگئے۔ بزرگ لگ رہے تھے۔
اصولاً تو مجھے سلام کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنی پریشانیوں میں گم سو انہوں نے سلام کرکے خاموشی توڑی اور پوچھنے لگے کہ ہمیں پہچانتے ہو۔ اس دبلے پتلے بابا جی کو تو میں خوب پہچانتا تھا کیونکہ کوئی عرصہ دس سال پہلے بھی میری ان سے ملاقات ہو چکی تھی جب میں انہیں اسلام آباد بھی لیکر گیا تھا۔ میں نے فوراً کہا جی سر آپکو تو پہچانتا ہوں آپ بابائے قوم ہیں ناں؟ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ہاں ، تم نے خوب پہچانا۔ میں نے کہا سر کیسے نہ پہچانتا میں آپ کو اسلام آباد بھی لیکر گیا تھا۔ میرا مقصد ان کو یہ جتانے کا تھا کہ میں نے اس وقت ان پر خاصی رقم خرچ کر دی تھی۔
وہ میری بات ان سنی کر کے بولے ان سے ملو یہ حکیم الامت اقبال ہیں۔ میں نے ان سے بھی پرتپاک انداز میں ہاتھ ملایا اور بابائے قوم سے کہا کہ آج آپکا کدھر آنا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اقبال کو پاکستان دکھانے لایا تھا کیونکہ اس نے تو آج تک نہیں دیکھا تھا۔ کیا تم ہمیں اسلام آباد لے چلو گے۔ میں جھینپ کر بولا کہ بزرگو میں ضرور آپکو اسلام آباد لے چلتا لیکن میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ میں آپکو لاہور ہی گھما سکوں۔ میرے تو اپنے بچے آج تین دن سے فاقوں سے بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد تو دور کی بات ہے۔ سچ پوچھیں تو میں تو آپکو چائے کا کپ بھی نہیں پوچھ سکتا۔ ہاں البتہ یہاں بیٹھے بیٹھے میں آپکو ہر قسم کی بریفینگ دے سکتا ہوں۔ انہوں نے مایوس ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہیں سیڑھیوں پر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ پوچھنے لگے کہ آج کل کس کی حکومت ہے؟ میں نے جواب دیا دکھاوے کیلئے ایک نمائشی مسلم لیگ کی حکومت ہے لیکن درحقیقت انکی حکومت ہے جن کو آپ نے سیاسی امور سے دور رہنے کا حکم دیا تھا۔
بابا جی جیسے کچھ سمجھ گئے ہوں لیکن شاعر مشرق علامہ اقبال بات کاٹ کر بولے اور یہ نمائشی مسلم لیگ کیا ہے؟ میں نے کہا حکیم صاحب نہ تو یہ پاکستان مسلم لیگ ہے اور نہ ہی کونسل مسلم لیگ ہے۔ حیران ہو کر بولے کیا کوئی اور مسلم لیگ بھی ہے؟ ہم نے تو ایک ہی مسلم لیگ چھوڑی تھی۔ میں نے انکی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ آپکے بعد ہی کونسل مسلم لیگ اور کنونشن مسلم لیگ کا قیام وجود میں آیا۔ ان دونوں کی پنیری بہت زرخیز تھی سو اس میں سے آدھ درجن اورمسلم لیگیں پھوٹیں مثلاً ضیا مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (مشرف)، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) وغیرہ۔
قائد اعظم حیران ہو کر بولے تو اس وقت ملک پر کس مسلم لیگ کی حکومت ہے۔ میں انکی معلومات میں اٖضافہ کرتے ہوئے بولا، سرکار ان میں سے کسی کی بھی نہیں۔ یہ ایک وکھری ٹائپ کی مسلم لیگ (47) ہے۔ دونوں حیران ہو کر بیک زبان بولے ’’سنتالیس‘‘؟ میں نے بتایا کہ جی ہاں یہ مسلم لیگ فارم سینتالیس پر بنی ہے اس لئے اسے پاکستان مسلم لیگ (47) کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال بولے میرا خیال تھا کہ 1947 کے حوالے سے اس مسلم لیگ کا نام سینتالیس ہے۔ قائد اعظم بولے کہ چلو سیاسی نظام تو چل رہا ہے ناں۔ میں نے انہیں وضاحت پیش کی کہ جناب سیاسی نہیں یہ ہائی برڈ نظام چل رہا ہے۔ بولے کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ یوں سمجھ لیں کہ چوں چوں کا مربہ۔
میری باتیں ان کے سر سے گذر رہی تھیں اور ان کے سوال مجھے ہضم نہیں ہو رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر بولے تمہاری باتیں سمجھنے کیلئے ہمارے دماغوں کا فریش ہونا بہت ضروری ہے۔ کچھ کوشش کرو اور ہمیں ایک ایک کپ چائے پلا دو۔ کھوکھے پر گیا اور اس سے تین کپ چائے ادہار مانگے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال میرے مہمان ہیں اور میرے پاس پیسے نہیں۔ وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگا۔ میں نے کہا یقین نہیں آرہا تو چائے خود لیکر آجانا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چائے لیکر آیا تو مجھے کہنے لگا باؤ جی آپ ٹھیک کہہ رہے تھے اس کے بعد ایک دم قائد کے قدموں میں بیٹھ کر انکے گھٹنے چھو کر بولا کہ بابا جی ہم غریبوں کو کس راجواڑے میں پھنسا گئے ہیں اگر پاکستان بنانا تھا تو کم از کم دس پندرہ سال زندہ تو رہتے۔
قائد اور علامہ اقبال دونوں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے۔ میں نے صفائی پیش کی کہ سادہ لوح ہے سمجھ رہا ہے کہ آپ دونوں بگڑا ہوا پاکستان ٹھیک کرنے آئے ہیں۔ بابائے قوم میری بات کاٹتے ہوئے بولے پچھلی بار تم نے مجھے بتایا تھا کہ بنگالی ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے سو الگ ہو گئے اور میں نے کہا تھا وہ نہیں رہنا چاہتے تھے یا تم لوگ انہیں ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا کہ بالکل آپ نے ایسا ہی کہا تھا۔ کہنے لگے تو پھر بگڑے پاکستان سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کہیں کوئی اور تو علیحدہ نہیں ہونا چاہ رہا؟ میں نے کہا نہیں سربس فرنٹیئر اور بلوچستان والے تھوڑے ناراض شراض ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سے نمٹ رہے ہیں جلدی ٹھیک کر لیں گے۔
ذرا غصے سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولے کہ تم لوگوں نے پاکستان کو پاکستان رہنے بھی دیا ہے یا نہیں؟ میں نے کہا بابا! میں تو نہ تین میں نہ تیرہ میں مجھ سے کیوں ناراض ہیں باقی ویسے آپ پنجاب گھوم پھر کر دیکھیں تو آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے۔ دانت پیس کر بولے کہ تمہارا مطلب ہے کہ صرف پنجاب ہی پاکستان ہے؟ میں بغلیں جھانکتا ہوا جواب سوچ ہی رہا تھا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بولے کہ چلو جناح صاحب واپس چلیئے لگتا ہے ہم پاکستان نہیں کسی روشنیوں والے جنگل میں آگئے ہیں۔ قائد اعظم بولے کہ تم لوگوں نے یہ میرے احسان کا بدلہ دیا ہے پھر دونوں حضرات اٹھے اور واپس مینار کی سیڑھیوں کی جانب چلدیئے۔ مجھے غصہ آیا کہ بابا ہر دفعہ مجھ غریب پر ہی کیوں غصہ اتارتے ہیں۔ ٹھیک ہے ان کا احسان تھا لیکن کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے ان کا آدھا احسان ۱۹۷۱ میں اتار دیا اور اگر قوم نے اسی عزم کا مظاہرہ کیا تو باقی کا بھی کوشش کریں گے کہ اتار دیں۔
کھوکھے والے کو چائے کی خالی پیالیاں پکڑا کر میں نے گھر کا رخ کیا۔ خیال تھا کہ بیگم کو جب بتاؤں گا کہ آج بابائے قوم اور علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی تو وہ پیسوں کا تقاضا بھول جائیگی اور خوشی کا اظہار کریگی لیکن گھر میں الٹ ہوا میں نے دروازے سے داخل ہوتے ہی جب اسے حیرت و مسرت سے بتایا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی تھی وہ منہ بنا کر بولی کہ لگتا ہے کہ فاقوں اور بیروزگاری سے تمہارا دماغ بھی چل گیا ہے جبھی تم بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہو۔ میرا دماغ نہ خراب کرو۔ بچے بھوکے سو گئے ہیں تم بھی جا کر پانی پی کر سو جاؤ۔
سہیل پرواز
ہیوسٹن، ٹیکساس
نوٹ: کالم نگار کی اجازت کے بغیرپانچواں کالم کسی پرنٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں۔
اقبال کا پاکستان