نیویارک: اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے۔
تحقیقاتی کمیشن کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے پاس واضح شواہد ہیں کہ 2023 میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل بین الاقوامی قانون میں بیان کردہ نسل کشی کے پانچ میں سے چار اقدامات کا مرتکب ہوا ہے۔
اسرائیل کو نسل کشی کے جن اقدامات کا مرتکب پایا گیا ہے ان میں کسی مخصوص گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل، انھیں شدید جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچانا، جان بوجھ کر کسی گروپ کو تباہ کرنے کے لیے حالات پیدا کرنا اور بچوں کی پیدائش کو روکنا شامل ہے۔
رپورٹ میں نسل کشی کے ارادے کو ثابت کرنے لیے اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات اور اسرائیلی افواج کے طرز عمل کا حوالہ دیا گیا ہے۔
حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 64,905 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی زیادہ تر آبادی متعدد بار بے گھر ہوچکی ہے جبکہ اندازے کے مطابق، 90 فیصد سے زیادہ گھر یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا انھیں نقصان پہنچا ہے۔ صحت کی سہولیات، پانی، صفائی اور حفظان صحت کے نظام تباہ ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ فوڈ سکیورٹی ماہرین اعلان کر چکے ہیں کہ غزہ شہر قحط کا شکار ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’مسخ شدہ اور جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے کمیشن میں شامل تینوں ماہرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’حماس کی پراکسی‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور انھوں نے رپورٹ کے لیے ’مکمل طور پر حماس کے جھوٹ‘ پر انحصار کیا ہے۔
ایشیاکپ : پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آج ہونیوالی پریس کانفرنس منسوخ