Site icon MASHRIQ URDU

ارباب اختیار کے دعوے اور زمینی حقائق

ارباب اختیار کے دعوے اور زمینی حقائق

صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وطن عزیز کو مضبوط کرنے کے لئے غریب طبقے پر توجہ دینا ہوگی۔ جناب صدر نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ برس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لینے اور ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سال نو کے آغاز میں ہی عوام کی خدمت اور ملک میں قیام امن کے لئے کام کیا جائے۔
جناب صدر کے سال نو پر یہ پیغامات یا بیانات خوش آئند ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے خوش کن بیانات سے وہ سب گمبھیر مسائل حل ہوسکتے ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام کے لئے اذیت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا اور محض دعوئوں کے بجائے عملی اقدامات اٹھائے جانے چاہیئے۔ افسوس کہ ایسا ہو نہیں رہا۔ دانش ور طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ وطن عزیز کے ستر فیصد سے زائد عوام کے مسائل کی نوعیت اور ارباب اختیار کی پالیسیاں بنانے کا انداز مختلف ہے۔ جس دن  خود کو عوام کے خادم کہلانے والوں کا انداز فکر عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہوگا اس دن سے نہ صرف معاشی استحکام کا آغاز ہوجائے گا بلکہ امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔ ملک میں سیاسی اور سماجی عدم  استحکام تبھی پیدا ہوتا ہے جب حکمرانوں کی سوچ کا سدھار عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مسائل در مسائل نے جنم ہی اسی لئے لیا ہے بلکہ گمبھیر صورت حال اختیار کرلی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے’ ان کا عمل دعوئوں سے متصادم ہوتا ہے۔ جس دن حکمرانوں کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد ختم ہوجائے گا ترقی کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں اکثر یہ بیانیہ بنایا اور اس کی تشہیر کی جاتی ہے کہ عوام کے مسائل اس لئے حل نہیں ہوتے کہ مسائل کے مقابلے میں وسائل کی کمی ہے۔ یہ بیانیہ صرف سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے گھڑا اور پھر اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ حکمران عوامی فلاح کا کوئی کام کرلیں تو ابھی اس کے مثبت اثرات یا ثمرات عوام تک پہنچنا شروع بھی نہیں ہوتے کہ اس کارخیر کی تشہیر پر اربوں روپیہ خرچ کردیا جاتا ہے۔
جناب صدر کے بیانات سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح کے لئے کچھ کرنے کا کہہ رہے ہیں مگر حکمرانوں کے دعوئوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملک معاشی ترقی کے اعتبار سے اڑان بھر چکا ہے اور معاشی حالت ہرگزرتے دن کے ساتھ بہتر ہورہی ہے’ اللہ کرے ایسا ہو اور عوام کی اکثریت پراُمید بھی ہے مگر اس صورت حال کا کیا کیا جائے کہ سیاسی عدم استحکام ہماری ترقی کا راستہ روکے ہوئے ہے’ اس سے بھی دو قدم آگے اٹھائے جائیں تو دہشت گردی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہی’ جب یہ بات طے ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام کا ہونا لازم ہے تو پھر اس اہم مسئلے کے حل کے لئے وہ ضروری اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے جن کا اٹھایا جانا ضروری ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک  سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف جانی قربانیاں دینے سے نہیں ہوگا’ اس کے لئے ان علاقوں میں بسنے والے عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنا ہوں گے جن کا وہ مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ مسائل تب حل ہوں گے جب سیاسی عدم استحکام ختم ہوگا اور اس کے لئے ارباب اختیار اور اپوزیشن کو میں نہ مانوں کی ضد چھوڑنا ہوگی۔ حکمران اور اپوزیشن جب تک ضد اور اَنا کی سیاست کرتے رہیں گے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ یہ ایسی ضرورت ہے جس پر ملک کا محب وطن طبقہ زور دیتا چلا آرہا ہے مگر حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر دونوں دھڑے قومی مشاورت کے بجائے ذاتی مفادات اور اَنا پر اڑے ہوئے ہیں۔ دونوں فریقوں میں شامل اعتدال پسند لوگ  مثبت تبدیلی کی کوشش کریں بھی تو شرپسند عناصر کے بیانات حالات کو بگاڑ دیتے ہیں۔ جناب صدر اور جناب وزیراعظم کو ان شرپسند عناصر سے جان چھڑانے کی تدبیر کرنی چاہئے۔ ملک میں سیاسی استحکام جتنا جلدی آئے گا اتنا ہی حکومت کے لئے مفید ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو جاری معاشی منصوبوں پر کام یکسوئی سے جاری رہ سکے گا۔ بصورت دیگر حالات کا پرنالہ اسی جگہ بہتا رہے گا جہاں بہہ رہا ہے اور عوام انہی مسائل و مشکلات کا شکار رہیں گے جس کے شکار ہیں۔

Exit mobile version