(تحریر و ملاقات: اصغر علی کھوکھر) علم، حلم، تدبر، تفکر، فصاحت و بلاغت اور فن خطابت یہ سب آللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ جس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بہت مشکل ہے، بس ناتواں ہاتھوں کو اٹھائے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ خالق و مالک اپنی نوازشات کاسلسلہ جاری رکھے، ناچیز کو ہمت صلاحیت اور اس چیز کی توفیق ارزانی عطا فرمائے کہ میں دین اسلام کی اسی طرح خدمت بجا لاتا رہوں، جس طرح بطور خطیب جامع مسجد وزیر اعلی ہاؤس پنجاب گزشتہ پندرہ برس سے بجا لا رہا ہوں، ان خیالات کا اظہار مولانا محمد ساجد نواز نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔
مولانا محمد ساجد نواز جن کا تعلق جلال پور پیر والا کے نواحی گاؤں نورانی بھٹہ ضلع ملتان سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، اس کے پیروکار دنیا بھر میں جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، مسلمانوں کے عزائم کبھی جارحانہ نہیں رہے، درحقیقت ہر مسلمان کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی اس طرح بسر کرے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد ساجد نواز نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گروہ بندی دینی احکامات کے منافی ہے، جس سے عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچ چکا، تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اب عالم اسلام میں اس برائی کے خلاف شعور بیدار ہو رہا ہے۔ امت اسلامیہ میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ عالم اسلام کو درپیش مسائل سے نجات کا واحد راستہ باہمی اتحاد اور اتفاق ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اسی پالیسی پر کار بند ہے، تمام مسالک کے مسلمان اپنی اپنی فقہ پر کار بند رہتے ہوئے ایک دوسرے کے احترام کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرے میں مزہبی منافرت کی وجہ سے پایا جانے والا تناؤ ختم ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی منافرت کی بڑی وجہ جہالت ہے جو شرح خواندگی میں اضافے سے ختم ہو سکتی ہے۔ مولانا محمد ساجد نواز نے اسی تناظر میں مزید کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دینی تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے نہ صرف ناظرہ قرآن مجید پڑھیں بلکہ ساتھ ساتھ قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کو بھی اپنا معمول بنائیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد ساجد نواز نے کہا کہ قرآن و احادیث کے مطابق مسلم معاشرے کا ہر مرد اور عورت اپنے اپنے قول و فعل کی ذمے دار ہے۔ یہ بات درست ہے کہ معاشرے سے برائیوں کا تدارک ارباب اختیار کی ذمےداری ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر فرد کو تزکیہ نفس پر خود بھی توجہ دینی چاہئے، خاص طور پر ہمیں چاہیے نہ صرف اپنی اصلاح پر توجہ دیں بلکہ اپنے بچوں سمیت زیر کفالت افراد کی اصطلاح بھی کریں، یہ وہ روش ہے جو اسلامی معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے، جس سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ مولانا محمد ساجد نواز نے کہا کہ اصلاح معاشرہ دوسرا اہم ذریعہ رزق حلال کمانا اور کھانا ہے، قرآن و سنت میں اس طرف بہت توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۃ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ آج اگر معاشرے میں اس طرف توجہ دینا شروع کر دیا جائے تو ملک سے اخلاقی کرپشن کا خاتمہ یقینی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کام کو اللہ تعالیٰ کا حکم اور مشن سمجھ کر کیا جائے تاکہ وطن عزیز کے قیام کا مقصد پورا ہو سکے۔
نماز پنج گانہ کی ادائیگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد ساجد نواز نے کہا کہ نماز دین کا ستون، جنت کی کنجی اور نمازی کے لیے روحانی بالیدگی کا باعث ہے۔ نماز سے قبل وضو کرنے سے شکل، قرآن مجید پڑھنے سے عقل اور نماز پڑھنے سے نسل پاک ہو جاتی ہے۔ جب نمازی نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے، جیسے پراہ راست آللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہا ہو۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ روز قیامت سب سے پہلا سوال یہی ہو گا کہ نماز قائم کی تھی کہ نہیں؟ نماز پڑھنے سے روحانی بالیدگی کے علاؤہ انسانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد کی ضرورت و اہمیت بھی مسلمہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے حقوق العباد کے بارے سستی اور کاہلی کامظأہرہ نہ کریں اس سے خدا سخت ناراض ہو جاتا ہے۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ
کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر،
خدا مہرباں ہو گا عرش برین پر